کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 110
ارتکاب اس طرح کھلم کھلا کریں کہ چارگواہ بھی دستیاب ہوجائیں۔٭ مغرب میں جہاں یہ انسدادی تدبیر موجود نہیں ہے، وہاں حالت یہ ہے کہ لوگ علیٰ الاعلان زنا کاری کاارتکاب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،جہاں چار نہیں بلکہ سینکڑوں گواہ میسر ہوسکتے ہیں لیکن کوئی قانون ایسانہیں جو اُنہیں اس کھلی بے حیائی سے باز رکھنے کے لئے آگے بڑھے۔
٭ کیا مظلوم خاتون کو ملزمہ بنانا درست ہے ؟
حد زناآرڈی نینس پر ایک اعتراض یہ کیاجاتاہے کہ زیادتی کا شکار خاتون جب رپورٹ درج کروانے کے لئے تھانہ جاتی ہے تو اسے زنا بالرضا کا ملزم گردانتے ہوئے دھر لیاجاتاہے اور اگر وہ رپورٹ درج نہیں کرواتی تو بعد ازاں حاملہ ہونے کی صورت میں اس پر مقدمہ قائم کیا جاتا ہے۔اس طرح اس قانون کو خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔[1]
ہمارے ہاں تھانوں میں عام طور پر اسی بات کا چلن ہے لیکن اس میں قصور حد زنا آرڈی نینس کا نہیں بلکہ اُن قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہے جو اس قانون کا سہارا لے کر خواتین کوبدنامی، قید اور مقدمہ بازی کا عذاب جھیلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال زعفران بی بی کیس ہے جس میں زعفران بی بی نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی رپورٹ متعلقہ تھانے میں درج کروائی جس میں اس نے واضح طور پر یہ موقف اختیار کیا کہ اس کے ساتھ زنا بالجبر کاارتکاب کیاگیا ہے لیکن بعد ازاں اس کا طبی معائنہ کروانے کے بعد اسے بھی اس مقدمہ میں شریک ِملزم بنا ٭دیا گیا۔[2]
اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے بہت سے ادارے دیگر قوانین کا غلط استعمال