کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 109
یاحد قذف کی سزا٭ کا سامنا کرناہوگا۔[1] دراصل عیسائیوں کے قانونِ طلاق میں زنا اور قذف کے الزام کوثابت کرنے کے لئے وہ معیارِ ثبوت درکار نہیں ہے جو حدود کے قوانین میں درکار ہے، اس لئے عیسائیوں کے ہر مقدمہ طلاق میں حد زنا یا حد قذف کے نفاذ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ عیسائیوں کے قانون کی خامی ہے نہ کہ حد زنا آرڈی نینس کی ! ٭ کیا حد زنا ایک بے فائدہ قانون ہے؟ یہاں اس اعتراض کو زیر بحث لانا مفید ہوگا کہ پاکستان میں آج تک کبھی حد زنا آرڈی نینس کی دفعہ نمبر ۵ کے تحت حد کی سزا نافذ نہیں ہوئی جبکہ پوری اسلامی تاریخ میں معدودے چند واقعات میں حد کی سزا نافذنہیں کی گئی۔ لہٰذا اس طرح کی قانون ساز ی کا کیافائدہ جو عملی طور پر نافذ نہ کی جائے۔ یہ اعتراض بھی دراصل غلط فہمی کا نتیجہ ہے اوراس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شریعت کا مطمح نظر ہرگزیہ نہیں کہ بڑی تعداد میں لوگوں کو سخت سزائیں دی جائیں بلکہ حد کی سزا دراصل ایک انسدادی تدبیر ہے تاکہ بے حیائی معاشرے میں اس حد تک نہ پھیل سکے کہ لوگ اس جرم کا