کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 108
رکھنے والے فرد کو یہ مکمل آزادی ہے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق فیصلہ کروائے۔ مثال کے طور پر نکاح و طلاق کے قوانین یاوراثت کے قوانین۔ لیکن وہ ملکی قوانین جن کا تعلق امن و امان اور معاشرے سے جرائم کی بیخ کنی سے ہوتا ہے، ان کااطلاق بلا تمیز سب شہریوں پر کیا جاتا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ پوری دنیا میں یہی اُصول رائج ہے۔مثال کے طور پرایک مسلمان عورت امریکہ میں اگر ظلم کا شکار ہوتی ہے تو وہ یہ مطالبہ نہیں کرسکتی کہ ظالم کو سزا اسلامی قوانین کے مطابق دی جائے، بلکہ وہاں کے ملکی قانون کا اطلاق ہوگا۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ اسلامی سزاؤں کا مقصد جرم کا سدباب اور ان کی بیخ کنی ہے۔ اگر یہ اصول اپنا لیا جائے کہ مسلمانوں کوتو زنا کے جرم میں کوڑے مارے جائیں اور غیر مسلموں کو اس حد سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے تو اس سے اس جرم کے ارتکاب کا ایک دروازہ کھل جائے گا اور معاشرے میں ان جرائم کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔ سزا دینے کا مقصد جرم کا سدباب کرنا اور مجرم پر سزا نافذ کرکے دوسروں کو تنبیہ کرنا ہے۔چونکہ یہ سزائیں ملکی قوانین کے تحت مقرر کی گئی ہیں لہٰذا مسلم اور غیر مسلم دونوں کو جرم کاارتکاب کرنے پر دی جائیں گی۔٭
٭ عیسائیوں کے قانونِ طلاق کا مسئلہ
ایک سوال یہ بھی اُٹھایا جاتا ہے کہ عیسائیوں کے قانونِ طلاق ۱۸۶۹ء کی دفعہ نمبر ۱۰ کے مطابق کوئی بھی عیسائی عورت طلاق کا مطالبہ کرتی ہے تو اسے اپنے شوہر پرنہ صرف زناکا الزام لگانا پڑتا ہے بلکہ اسے ثابت بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں حدود کے قوانین کا غیر مسلموں پر اطلاق ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ عیسائیوں کے طلاق کے ہر مقدمہ میں ایک فریق کو حد زنا
_________________
٭ وفاقی شرعی عدالت نے زعفران بی بی کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ
’’حدود قوانین ایک اسلامی ریاست کے شہریوں کو بلا تفریق جنس، دولت، مذہب، ذات، رنگ و زبان وغیرہ پرامن زندگی گزارنے کی ضمانت مہیا کرتے ہیں اور ان کے بنیاد ی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دیگر تجاوزات کے مقابلے میں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔‘‘ (PLD 2002 FSC-1)