کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 107
5. وفاقی شرعی عدالت نے خود بھی بہت سے مقدمات میں عورتوں کی گواہی پر زنا بالجبر کے ملزمان کو سزائیں سنائی ہیں اور عورتوں کے گواہی کے حق کو تسلیم کیاہے اور اس سلسلے میں اسلامی فقہ کے اصولوں پر انحصار کیاہے۔ جس کا ثبوت وفاقی شرعی عدالت کی مندرجہ ذیل نظیر سے ملتا ہے۔ متعلقہ مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت نے قرار دیا ہے کہ ’’حدود و قصاص کی متعین سزاؤں میں اگر چہ بالعموم فقہا مردوں کی عینی شہادت کو لازم سمجھتے ہیں لیکن حدود سے فروتر تعزیری سزاؤں میں مردوں کی چشم دید شہادت اور شہادت بالقرائن کو بھی ائمہ سلف نے قابل قبول قرار دیا ہے۔‘‘ (پی ایل ڈی۱۹۸۲ وفاقی شرعی عدالت ص ۱۱۳) جرم زنا سے متعلق قانون کے تحت عورتوں کی گواہی کا حق تسلیم اور مستند ہونے سے متعلق اور بھی بہت سے فیصلہ جات کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ لیکن مذکورہ بالا مختصر بحث سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ یہ کہنا غیردرست ہے کہ زنا سے متعلق جرائم کے مقدمات میں عورت کو گواہی کے حق سے محروم کردیاگیاہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اگر تزکیہ الشہود کے معیار پر پورا اترنے والے چار مرد گواہ موجود نہ ہوں تو ملزم کوسنگسار کے ذریعے سزاے موت اور کوڑوں کی سزا نہیں دی جاسکتی۔ البتہ عورتوں سمیت دیگر گواہوں کی شہادت پر اسے دس سے پچیس سال تک قید سخت اور جرمانے کی سزا سنائی جاسکتی ہے اور یہ سزا اس سزا سے دوگنا ہے جو سابقہ قانون میں تجویز کی گئی تھی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حدود قوانین میں عورت کو گواہی کے حق سے محروم نہیں کیاگیاہے بلکہ ان قوانین کے توسط سے ایک عورت کی گواہی پر مجرم کو سابقہ قانون کی نسبت دوگنا زیادہ سزا کے مواقع میسر آگئے ہیں۔ ٭ کیا اس آرڈی نینس کا غیرمسلموں پراطلاق درست ہے؟ حد زنا آرڈی نینس کی دفعہ نمبر ۸ کے حوالے سے اقلیتوں کے نمائندے بارہا اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ اُس قانون سازی کا اطلاق غیرمسلموں پر نہیں ہونا چاہئے جس کی بنیاد اسلامی تعلیمات ہیں بلکہ ان کے شخصی قوانین کے مطابق انہیں سزا دی جائے۔[1] دراصل یہ اعتراض ایک بڑی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ شخصی قوانین میں تو ہر مذہب سے تعلق