کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 106
منظر عام پر آچکے ہیں۔ قانونِ شہادت مجریہ ۱۹۸۴ء اورعدالتی فیصلہ جات کاجائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ این جی اوز کا یہ پروپیگنڈا کہ حد زنا آرڈیننس کے ذریعے عورتوں کو گواہی کے حق سے محروم کردیاگیاہے، درست نہیں ہے۔ 1. قانونِ شہادت ۱۹۸۴ کے آرٹیکل ۱۷ کی ذیلی دفعہ’ ۲ بی‘ میں صراحت کی گئی ہے کہ ’’حد زنا کے نفاذ سے قطع نظر، زنا کے مقدمے میں عدالت ایک مرد یا ایک عورت کی گواہی پر تعزیر کی سزا دے سکتی ہے۔ (یاد رہے کہ یہ سزا ۱۰ سے ۲۵ سال قید بامشقت اور جرمانہ ہے)‘‘ 2. عدالت کو یہ بھی اختیارات حاصل ہیں کہ وہ اگر مناسب سمجھے تو جرمِ زنا کے اثبات کے لئے گواہوں کی تعداد اوراہلیت کے متعلق بھی فیصلہ کرے۔ عدالت عالیہ نے ایک مقدمہ میں اس اُصول کی حسب ِذیل الفاظ میں صراحت کی ہے : ’’قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ مقدمہ کے حالات و واقعات کے پیش نظر گواہوں کی تعداد اور اہلیت کے تعین کا اختیار عدالت کو حاصل ہے۔‘‘ (۱۹ ۹۲ء پاکستان کریمنل لاء جرنل صفحہ۱۵۲۰) 3. سپریم کورٹ، آزادکشمیر نے قصاص اور زنا کے مقدمات میں عورت کی گواہی کے حوالے سے مندرجہ ذیل اُصول بیان کیا : ’’قصاص اور نفاذِ حدود کے مقدمات میں بھی چار مرد گواہوں کی شہادت کے بعد مزید شہادت کے لئے عورتوں کی گواہی میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔‘‘ (پی ایل ڈی۱۹۷۹ء سپریم کورٹ (آزاد جموں کشمیر) صفحہ ۵۶) اس فیصلے سے یہ امر واضح ہوتاہے کہ اگر خواتین یہ محسوس کریں کہ حد زنا کے کسی مقدمہ میں چار مرد گواہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں یا درست گواہی نہیں دے رہے ہیں تو واقعہ کی چشم دید گواہ عورتیں بھی عدالت کے روبرو گواہی دے سکتی ہیں۔ اور اصل حقائق کو عدالت کے علم میں لانے کا حق رکھتی ہیں۔ 4. ۱۹۷۹ء میں ایک زنا بالجبر کے ایک مقدمے کافیصلہ تحریر کرتے ہوئے کراچی ہائی کورٹ نے صرف ایک مظلومہ عورت کے بیان کو کافی گردانا اور قرار دیا کہ ’’زنا بالجبر کے کیس میں مقدمہ کے حالات و واقعات کے پیش نظر زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کے بیان پر ملزم کو سزا دی جاسکتی ہے۔‘‘ (پی ایل ڈی ۱۹۷۹ء کراچی، صفحہ ۱۴۷)