کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 105
کرباہر آئے۔[1] ٭ کیا حد زنا آرڈی نینس میں عورت گواہی کے حق سے محروم ہے؟ حد زنا آرڈی نینس کی دفعہ نمبر ۸(ب) کے حوالے سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ حدود کے مقدمات میں عورت کو گواہی کے حق سے محروم کردیا گیا ہے جو کہ عورتوں کے ساتھ شدید ناانصافی اورامتیازی سلوک ہے۔ اگر ایک عورت کو کسی ایسی جگہ پر ظلم کا نشانہ بنایا جاتاہے جہاں صرف عورتیں گواہ موجود ہیں تو ایسی صورت میں ظالم شخص صرف اس لئے سزا سے بچ جائے گا کہ کوئی مرد گواہ دستیاب نہیں۔[2] ثبوتِ جرم زنا کے لئے چار گواہوں کی شرط قرآن حکیم کی سورۃ النساء آیت نمبر ۱۵ اور سورۃ النور کی آیت نمبر ۴ کی بنیاد پر قانون میں شامل کی گئی ہے۔ بادی النظر میں دفعہ ۸ کے مطالعہ سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ عورتوں کو گواہی کے حق سے محروم کرنے کی حد تک یہ ایک امتیازی قانون ہے لیکن اس قانون کے پردے میں چھپی ہوئی مصلحت پر غور کیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ خواتین کی عزت و تکریم کے پیش نظر ہے۔ اور عصر جدید میں جب جرح کے دوران چشم دید خواتین سے جرم زنا سے متعلق لوازمات اور جرم کے عمل سے متعلق مخصوص سوالات عزت دار مسلمان خواتین کے لئے ذہنی کوفت کا سبب بن سکتے ہیں اور بھری عدالت میں درست واقعات کے واضح بیان میں ہچکچاہٹ کا موجب بن سکتے ہیں۔ اس طرح خواتین کی فطری شرم و حیا کی وجہ سے مجرم سزا سے بچ سکتا ہے۔ نیز یہ کہ زنا بالرضا کی صورت میں چار مرد گواہوں کا میسر نہ آنا عورتوں کو سزا سے بچانے میں بھی ممدو معاون ثابت ہوتا ہے اور ان کے لئے سہولت کا باعث بنتا ہے۔ زنا بالجبر کا معاملہ البتہ زنا بالرضا سے مختلف ہے۔ اس جرم میں عورت صریحاً زیادتی کا نشانہ بنتی ہے جن حالات میں یہ جرم سرزد ہوتا ہے ان میں عام طور پر چار غیر جانبدار مرد گواہوں کا موجود ہونا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ ان تمام معاملات اور عورتوں کی گواہی کے حوالے سے اعلیٰ عدالتوں کے بہت سے فیصلے