کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 104
گئی ہے۔کوڑے قسطوں کی بجائے ایک ہی دفعہ لگائے جاتے ہیں اورجسم کے ایک مخصوص حصے پرلگائے جاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں یہ اُصول وضع کیاگیا ہے کہ کوڑوں کی سزا ایسی ہونی چاہئے جو قیدی کو آئندہ جرم کا ارتکاب کرنے سے باز و ممنوع رکھ سکے نیز ۱۶ سال سے کم عمر قیدیوں کوبھی ۱۵ تک کوڑوں کی سزا دی جاسکتی ہے۔[1] یہاں شریعت اسلامی میں کوڑوں کی سزا کے اجرا کے طریقہ کار کے بارے میں احکامات کو بیان کرنا بھی مفید ہوگا۔ سزا ے قید کے ساتھ تقابل: ہمارے ملک میں رائج دیگر قوانین کی سزا بنیادی سزا ہے جب کہ شریعت میں سزاے قید ایک ثانوی سزا ہے جوصرف معمولی جرائم میں دی جاتی ہے۔ہر صاحب ِبصیرت بآسانی یہ جان سکتا ہے کہ قید کی سزا جرائم کی بیخ کنی کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔جیلیں قیدیوں سے اَٹی پڑی ہیں ، گنجائش سے کہیں زیادہ افراد اپنے اہل وعیال سے دور جیل میں اس طرح پڑے ہیں جس طرح کوئی جانور پنجرے میں پڑا ہو یا کوئی مردہ قبر میں لیٹا ہو۔قیدیوں کے اہل وعیال اور ان کے بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا اور ان کی بنیادی ضرورت پوری کرنے والا کوئی نہیں اور وہ الگ نا کردہ گناہوں کی سزا اپنے سرپرست سے محرومی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کا اندازہ مندرجہ ذیل جدول سے کیا جا سکتا ہے۔ ۲۰۰۲ء میں جیلوں میں قیدیوں کے اعداد وشمار یہ تھے کہ پنجاب کی ۳۰ جیلوں میں ۴۹۳۰۱، سندھ کی ۱۶ جیلوں میں ۱۸۴۰۰، سرحد کی ۲۱ جیلوں میں ۹۵۱۵، بلوچستان کی ۱۰ جیلوں میں ۲۶۷۴ اور شمالی علاقہ جات + آزاد کشمیر کی ۹ جیلوں میں ۲۴۶۲ قیدی موجود تھے۔ یعنی ملک بھر کی ۸۶ جیلوں میں ۸۲۳۵۲ قیدی، جبکہ گنجائش محض ۳۶۲۹۰ قیدی کی تھی۔ غور کریں کہ ان دونوں سزاؤں میں سے کس میں زیادہ سختی ہے کوڑے لگا دینے میں جس کے بعد وہ آدمی آزادی سے اپنے اہل و عیال میں رہے یا سزاے قید میں کہ اس کی آزادی شرافت ، انسانیت اورمردانگی سب کچھ سلب کرلیا جائے۔ ایک قیدی جیل خانے کی زندگی اور وہاں کے اخلاقی فساد، ضیاعِ صحت، بیکاری اورکاہلی کی عادات کے ساتھ پہلے سے بڑا مجرم بن