کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 103
’’اور تم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ کے دین کے معاملہ میں ذرا رحم نہ آئی۔‘‘ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی تنبیہ ہے کہ زانی اور زانیہ پرمیری تجویز کردہ سزا نافذ کرنے میں مجرم کے لئے رحم اور شفقت کا جذبہ تمہارے ہاتھ نہ پکڑے۔ اس بات کو مزید وضاحت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ ’’قیامت کے روز ایک حاکم لایاجائے گاجس نے حد میں ایک کوڑا کم کردیا تھا۔‘‘ پوچھا جائے گا ’’یہ حرکت تو نے کیوں کی‘‘؟ وہ عرض کرے گا : ’’آپ کے بندوں پر رحم کھاکر‘‘ ارشاد ہوگا: ’’تو ان کے حق میں مجھ سے زیادہ رحیم تھا‘‘ پھر حکم ہوگا:’’لے جاؤ اسے دوزخ میں ‘‘[1] ایک اورحاکم لایا جائے گا جس نے حد پر ایک کوڑے کا اضافہ کردیا تھا۔ پوچھا جائے گا ’’تو نے یہ کس لئے کیا تھا…؟‘‘ وہ عرض کرے گا ’’تاکہ لوگ آپ کی نافرمانیوں سے باز رہیں۔‘‘ ارشاد ہوگا: ’’اچھا تو ان کے معاملے میں مجھ سے زیادہ منصف تھا۔‘‘ پھر حکم ہوگا: ’’اسے لے جاؤ دوزخ میں …‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حدود کے مقدمات میں مجرم کو وہی سزا دی جائے گی جو اللہ نے تجویز کی ہے۔سنگساری اور کوڑوں کی سزا کی بجائے کوئی اور سزا دینا اگر رحم اور شفقت کی بنیاد پر ہو تو معصیت ہے اور اگر اس خیال کی بنا پر ہوکہ سنگساری اور کوڑوں کی سزا ایک وحشیانہ سزا ہے تو یہ قطعی کفر ہے جو ایک لمحہ کیلئے بھی ایمان کے ساتھ ایک سینے میں جمع نہیں ہوسکتا۔ کوڑوں کی سزا کوئی نئی سزا نہیں ہے جو پہلی مرتبہ متعارف کروائی جارہی ہو۔ اس وقت بھی امریکہ اورانگلینڈ جیسے ممالک میں بعض جرائم کے لئے کوڑوں کی سزا مقرر ہے حتیٰ کہ پاکستان کی جیلوں میں آج بھی یہ سزا دی جارہی ہے اور عدالت ہی نہیں بلکہ جیل کا ایک سپرنٹنڈنٹ بھی ایک قیدی کو ۳۰ تک کوڑوں کی سزا دینے کا مجاز ہے۔ کوڑوں کی کم از کم تعداد ۱۵ مقرر کی