کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 102
ہونا ضروری ہے۔[1] اسی طرح جو لوگ زانی کی سزاے موت سے اس قدر گھبراتے ہیں وہ اگر اعداد وشمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ زنا کی وجہ سے ہونے والے قتل کی تعداد دیگر وجوہات کی بنا پر ہونے والے قتل سے نصف ہوتی ہے۔عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ اگر کوئی اپنی بیوی یابیٹی کو کسی کے ساتھ ملوث دیکھتا ہے تو دونوں کو خود قتل کردیتا ہے اور بعض اوقات قتل کے ایسے طریقے اختیار کئے جاتے ہیں جوشدتِ تکلیف میں سنگسارکرنے سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ اس صورت حال میں سنگسار کئے جانے کی سزا کو اختیارکرنا اس واقعی صورتِ حال کا اعتراف ہے۔[2] کوڑوں کی سزا: کوڑوں کی سزا کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا رُخ مجرم کی مادّی حساسیت کی طرف ہوتاہے۔ جس چیز سے مجرم زیادہ ڈرتے ہیں ، وہ جسمانی اذیت ہے۔ اس لئے ان کو خوفزدہ کرنے کے لئے اس نفسیا ت سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ یہ تصور کہ یہ سزا احترامِ انسانیت کے منافی ہے، ایک بے بنیاد بات ہے۔جب مجرم نے اپنا احترام خود ملحوظ نہیں رکھا تو اس کے احترام کودلیل نہیں بنایاجاسکتا۔[3] نیز ایک یا دو اشخاص کو شدید جسمانی اذیت پہنچاکر لاکھوں اشخاص کواخلاقی اورمعاشرتی نقصان سے بچا لینااس سے بہتر ہے کہ مجرم کو تکلیف سے بچا کر اس کی پوری قوم کو ایسے نقصان میں مبتلا کردیاجائے جو آنے والی بے گناہ نسلوں پر بھی اثر انداز ہوتے رہیں۔ اسی طرح جو لوگ اسلامی سزا کو وحشیانہ قرار دیتے ہیں ، وہ دراصل معقولات کی بجائے محسوسات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔جونقصان ایک فرد پر مرتب ہوتاہے وہ چونکہ محدود شکل میں محسوس طور پر ان کے سامنے آتا ہے، اس لئے وہ اسے ایک امر عظیم سمجھتے ہیں۔اس کے برخلاف وہ اس نقصان کی اہمیت کا ادراک نہیں کرتے جو وسیع پیمانہ پر پورے معاشرے اور آئندہ نسلوں پر مرتب ہوتا ہے۔[4] جو لوگ اسلامی سزاؤں کو وحشیانہ یا سخت قرار دیتے ہیں انہیں مذکورہ آیت کا یہ حصہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے : ﴿وَلاَ تَاْخُذْ کُمْ بِھِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰه ﴾ (سورۃ النور :۲)