کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 101
وہ اس جرم سے دور رہے گا۔ شریعت ِاسلامیہ نے ہی انسانی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے سزائیں مقرر فرمائی ہیں۔جو جرائم معاشرے کے لئے خطرناک ہیں ، ان پرنرمی برتنا معاشرے کے لئے زیادہ نقصان دہ ہوسکتا ہے اس لئے اس میں زیادہ سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔[1] سنگساری کی سزا: جہاں تک سنگساری کی سزا کا تعلق ہے، اس کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جاتاہے کہ یہ ایک تکلیف دہ طریقہ ہے۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سنگساری کی سزا دراصل سزاے موت ہی ہے اور قوانین عالم میں متعدد جرائم کی سزاموت تجویز کی گئی ہے۔ سزاے موت کے لئے مختلف طریقے اختیار کئے جاتے ہیں مثلاً پھانسی دینا، تلوار سے قتل کرنا، گیس کے ذریعے مارنا، بجلی کے جھٹکے سے مارنا، گولی سے مارنا یا پتھروں سے مارنا وغیرہ۔ یہ سب موت کے طریقے ہیں لیکن موت اپنی جگہ ایک ہی ہے۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ گولی سے موت جلد واقع ہوجاتی ہے اور پتھروں سے ہر صورت میں موت دیر سے آتی ہے تو ایسا شخص کھلی غلطی میں مبتلاہے۔ بعض اوقات گولی بھی صحیح مقام پر نہیں لگتی اور موت میں تاخیر ہوجاتی ہے اور پتھر مقامِ قتل پر لگ جاتے ہیں اورموت فوراً واقع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح گولی مارنے والے کم تعداد میں ہوتے ہیں اور ان کی گولیاں بھی محدود ہوتی ہیں جبکہ پتھر مارنے والوں کی تعداد کثیر ہوتی ہے اوروہ اس وقت تک مارتے رہتے ہیں جب تک اس شخص کی موت واقع نہ ہوجائے۔ذرا تصور کیجئے کہ ایک آدمی کو سینکڑوں لوگ پتھروں سے مار رہے ہوں تو کیا وہ گولی کی موت سے جلدی نہیں مرجائے گا۔تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ اکثر اوقات پھانسی کی رسی سے موت جلد واقع نہیں ہوتی۔ اسی طرح گیس اوربجلی کے جھٹکے دینے سے بھی موت میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ اس سزا کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ موت کے بارے میں یہ سوچناکہ جلد واقع ہوجائے، نظریۂ سزا کے سراسر منافی ہے کیونکہ موت میں اگر تکلیف اورعذاب کا پہلونہ رہے تو یہ سب سے معمولی سزا بن جائے۔ کیونکہ لوگ بذاتِ خود موت سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا مرنے کی تکلیف سے ڈرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ مرنے والے کے لئے تکلیف اورعذاب کی کوئی اہمیت نہیں لیکن معاشرے کے دیگر افراد کومتنبہ اور خوف زدہ کرنے کے لئے اس تکلیف کا