کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 100
کو منسوخ کردیا۔اس کی دو توجیہات ممکن ہیں :ایک یہ کہ سنت نے سورۃ النور کی آیت میں تخصیص پیدا کرکے اس کے حکم کو غیر شادی شدہ زانی کی حد تک محدود کردیااور دوسری یہ کہ سنت نے سورۃ النور کے حکم کو نہ تو منسوخ کیا ہے اور نہ ہی تخصیص کی بلکہ وہ اپنے عموم پربرقرار ہے۔البتہ شادی شدہ زانی بیک وقت دونوں سزاؤں کا حقدار ہوتاہے۔قرآن کی رو سے کوڑوں کا اورسنت کی رو سے سنگساری کی سزا کا، لیکن فقہ کا اُصول یہ ہے کہ ’’چھوٹی سزا بڑی سزامیں مدغم ہوجاتی ہے۔‘‘ لہٰذا عملاً صرف سنگساری کی سزا دی جائے گی۔ قرآن کے عموم کی تخصیص سنت ِمتواتر کے ذریعے بالاجماع جائز ہے اور اس مسئلہ پر کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔[1]
اس بحث کی مثال اگر ہم موجودہ دور سے لیناچاہئیں تو تعزیرات ِپاکستان کی دفعہ نمبر۳۷۹ میں چور کی سزا ۳ سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں تجویز کرتی ہے، اس میں ہر طرح کاچور شامل ہے خواہ اس نے کسی رہائشی مکان سے چوری کی ہو یا دوکان سے۔ جبکہ دفعہ نمبر۳۸۰ میں یہ کہا گیا ہے کہ جو شخص کسی رہائشی مکان میں چوری کا ارتکاب کرے تو اس کی سزا۷ سال قید تک ہوسکتی ہے۔اس دفعہ میں ایک خاص قسم کی چوری کا ذکر ہے جو دفعہ نمبر۳۷۹ کے عموم میں بھی داخل تھی تو کیا اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ دفعہ ۳۸۰ دفعہ ۳۷۹ سے متصادم ہے یا دفعہ ۳۸۰ نے دفعہ ۳۷۹ کو منسوخ کردیا۔ یہی صورت حال زانی کی سزا کے سلسلہ میں واقع ہوئی ہے۔[2]
٭ کیا سنگساری اور کوڑوں کی سزائیں ظالمانہ ہیں ؟
ایک اعتراض یہ کیاجاتا ہے کہ حدود کی سزائیں ظالمانہ اور سخت ہیں اور بعض لوگ تو اُنہیں وحشیانہ بھی قرار دیتے ہیں۔
انسانی نفسیات یہ ہے کہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں فائدے اورنقصان کا موازنہ کرتا ہے اگر فائدے کا پہلو غالب ہوتا ہے تو کرگزرتا ہے اور اگر نقصان کا پہلو غالب ہوتاہے تو گریز کرتاہے۔چنانچہ انسان ارتکابِ جرم میں بھی اسی اصول کو پیش نظر رکھتا ہے۔ اگر اسے فائدے کی اُمید زیادہ اور سزا کی کم تو وہ اس جرم کا ارتکاب کر گزرے گا اور اگر اس کی سزا شدیدہوگی تو