کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 9
اِھْدِنَا۱؎ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمِ٭ صِرَاطَ۲؎ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ﴾ ہم کو سیدھا رستہ دکھا۔ ان لوگوں کا رستہ جن پر تو نے (اپنا فضل)کیا۔ __________________________________________ انسان کے بہکنے اور بھٹکنے کا سب سے بڑا سبب غیر اللہ سے ’آس اور توقعات‘ کے غلط سہارے ہیں، وساطتوں کے یہ سارے چکر، انہی خوش فہمیوں کے پیدا کردہ ’’حجابات اکبر‘‘ ہیں۔ جو خدا اور بندوں کے درمیان شروع سے حائل ہیں اور نفس و طاغوت کی تزئین اور تحریص کا نتیجہ ہیں۔ اگر پہلے ہی دن ان کی رگ گلو پر چھری پھیر دی جائے تو پھر یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی اس کا ’’در‘‘ چھوڑ کر کسی غیر کی دہلیز اور آستاں پر چوکڑی مار کر بیٹھ رہے یا کسی کے لئے ان میں کوئی وجہ دلکشی باقی رہے؟ ایک اللہ کے ولی فرمایا کرتے تھے: یہ سب کمزوریاں رب سے بے خبری کا نتیجہ ہیں۔ یَا رَبِّ! عَجِبْتُ لِمَنْ یَّعْرِفُکَ کَیْفَ یَرْجُوْ غَیْرَکَ وَعَجِبْتُ لِمَنْ یَّعْررِفُکَ کَیْفَ یَسْتَعِیْنُ بِخَیْرِکَ (جامع العلوم والحکم لابن رجب ص ۱۳۸) الٰہی! میں حیران ہوں! تجھے پہچان کر پھر کوئی کیسے غیر سے آس لگاتا ہے اور یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ تجھے پہچانتا ہے، پھر غیر سے مدد مانگتا ہے۔ حضرت حسن بصری، حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو خط لکھتے ہیں کہ: لَا تَسْتَعِنْ بِغَیْرِ اللّٰہِ فَیَکُلِّکَ اللّٰہُ اِلَیْهِ (جامع العلوم ص ۳۸) غیروں سے مدد نہ مانگیے ورنہ اللہ آپ کو اسی کے حوالے کر دے گا۔ الغرض استعانت کا دائرہ وسیع ہے: پس جو استعانت بندے اور خدا کے مابین ’حجاب‘ ثابت ہو وہ کافری، جو اس کی راہ نما نکلے، وہ ایمان پروری، بندے کو جو خدا سے درے درے رکھے، وہ ممنوع اور جو خدا سے قریب تر کر دے وہ مشروع، اللہ اللہ خیر سلا۔ ظاہر ہے وہ ایمان و عمل صالح ہی ہیں، ان کے سوا اور جو شے بھی ہوتی ہے وہ وسیلہ کے بجائے پاؤں کے لئے بیڑیاں بن جاتی ہیں۔ تجربات آپ کے سامنے ہیں۔ ۱؎ اھدنا الصراط المستقیم (نہایت لطف و کرم کے ساتھ ہم کو سیدھی راہ رکھا) آپ نے ’عہد غلامی‘ کر کے اللہ تعالیٰ سے ’توفیق عمل‘ کی درخواست کی تھی اور اس کا بھی یقین دلایا تھا کہ الٰہی صرف تیرے ہی در کی آس رکھوں گا اور جو مانگنا ہو گا تجھ ہی سے مانگوں گا۔