کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 7
۲۔ عدلیہ کو انتظامیہ سے آئین کے لاگو ہونے کے تین سال کے اندر بتدریج الگ کر دیا جائے گا۔ یعنی ابھی نہیں۔ (ص ۷۹-۸۰)
اس سلسلے میں چند ایک امور ایسے سامنے آتے ہیں جن سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ:
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر، سپیکر اور وزیرِ اعظم کے لے ضروری نہیں کہ وہ کتاب و سنت کے علم و عمل اور حکمت کے حامل بھی ہوں۔ یعنی شہر کی جامع مسجد کا خطیب اور امام وہ، جو اور تو سبھی کچھ ہو مگر اس کو نماز نہ آتی ہو۔
مذکورہ بالا ساری سیاسی حکمتِ عملی کی انتہاء ’ملک کے وزیر اعظم‘ کی ذات پر ختم ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی جس میں وزیرِ اعظم کو اکثریت حاصل ہے وہ بھی دراصل اپنی نہیں، وزیر اعظم کے دل کی بات قومی اسمبلی کی زبان میں کہتی ہے۔
اسلامی کونسل اور شقوں کی بات بھی اسی ’’ذات والا‘‘ کی صوابدید پر منحصر ہے۔ اسلامی کونسل صرف سفارش کا حق رکھتی ہے۔
صدر، سپیکر اور وزیر اعظم بظاہر علیحدہ علیحدہ منصب ہیں لیکن معنویت کے لحاظ سے صدر اور سپیکر کی حیثیت ’وزیر اعظم‘ کی زبان کی ہے۔ علیحدہ کچھ نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک یہ کچھ اچھی فال نہیں ہے یہ اس کی صورت ایک آئینی حیثیت کی بات ہے۔ جہاں تک ان کی شخصی حیثیت کا معاملہ ہے، اس میں ان کی ’’انفرادیت‘‘ محل نظر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سوچنا ہے کہ، انکا انتخاب قومی امنگوں اور دلچسپیوں کا مظاہر ہے یا کسی فردِ واحد کی نظر کرم اور مصلحت آمیز صوابدید کا نتیجہ؟ ہمارے نزدیک اصل صورت اخیری ہے۔ اس لئے اندازہ یہی ہے کہ یہ دونوں بزرگ مسٹر بھٹو کو شاید ہی کسی مفید مشورہ کا قائل کر سکیں۔ اس پر اگر کوئی صاحب یہ کہہ دیں کہ:
منفرد مقام اور حیثیت کے حامل یہ دونوں منصب ضائع ہو گئے ہیں اور ان کی افادی حیثیت مشتبہ ہو گئی ہے تو اس کو جھٹلانا آسان نہیں ہو گا۔