کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 6
کیا جائے گا۔
۴۔ سینٹ بل مسترد کر دے یا ترمیم کر دے تو اسے مکرّر قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ منظوری کی صورت میں اسے براہِ راست صدر کی منظوری کے لئے بھیج دیا جائے گا۔
دراصل صوبائی احساسات کی بنا پر سینٹ کی ایجاد کی گئی ہے تاکہ قومی اسمبلی میں اپنی پوری نمائندی کے نہ ہونے کی صورت میں اپنے حقوق اور مسائل کی نگرانی کی جا سکے۔ بہرحال دونوں ایوانوں میں تضاد کی صورت میں فیصلہ قومی اسمبلی کا ہی ناطق تصور کیا جائے گا۔
۱۔ اسلامی کونسل کے ارکان کی تعداد کم سے کم ۸ زیادہ سے زیادہ ۱۵ ہو گی۔ ایک کو صدر ہی چیئرمین مقرر کرے گا۔
۲۔ ان کی تقرری صدر کرے گا۔ مگر ضروری ہو گا کہ وہ اسلام کے متعلق علم رکھتے ہوں۔
۳۔ ان میں کم از کم دو افراد ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج ضرور ہوں گے۔
۴۔ ان میں کم از کم چار ایسے رکن ہوں گے جنہوں نے ۱۵ سال تک ریسرچ یا اس کی تدریس کی ہو گی۔
۵۔ ان میں ایک عورت بھی ضرور ہو گی۔
۶۔ اگر اکثریت سینٹ کے کسی رکن کے خلاف صدر سے سفارش کرے گی تو صدر اس کو الگ کر سکے گا۔
۷۔ پارلیمنٹ اسلامی کونسل سے مسودہ قانون کے بارے میں رائے معلوم کر سکے گی۔
۸۔ اور کونسل اس کو یہ بتائے گی کہ یہ اسلام کے مطابق ہے یا نہیں؟
۹۔ اپنی آخری رپورٹ سات سال کے اندر پیش کرے گی اور ہر سال ایک عبوری رپورٹ پیش کرتی رہے گی۔ رپورٹ چاہے آخری ہو یا عبوری اسے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اور آخری رپورٹ کے پیش ہونے کے دو سال بعد تک اسمبلی اس کے مطابق قانون بنائے گی۔
گورنر کا تقرر صدر کرے گا اور اس وقت تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا جب تک اس کو صدر کی خوشنودی حاصل ہو گی۔ اور وزیر اعلیٰ کے مشوروں کا پابند ہو گا نیز وزیر اعلیٰ کی جانب سے دی جانے والی ہدایت کے بارے میں عدلیہ کو تفتیش کرنے کا اختیار حاصل نہ ہو گا۔ (ص ۵۴)
۱۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر صدر کرے گا اور دیگر جج بھی صدر چیف جسٹس کے مشورہ سے مقرر کرے گا۔ اسی طرح ہائی کورٹ کے جج صاحبان۔