کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 5
۶۔ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اس وقت تک پیش نہیں کی جا سکے گی جب تک نئے وزیر اعظم کا نام نہ لیا جائے یا جب سالانہ بجٹ کے مطابق مطالبات پر قومی اسمبلی غور کر رہی ہو۔
۷۔ دس سال کے عرصہ تک یا دوسرے عام انتخابات کے انعقاد تک قومی اسمبلی کے کسی رکن کا ووٹ جو کسی سیاسی جماعت کی اکثریت پر منتخب ہوا ہو، عدم اعتماد کی تحریک کے حق میں قبول نہیں کیا جائے گا۔
۸۔ اگر ایک دفعہ وہ تحریک منظور نہ ہو سکے تو ایسا کوئی ریزولیوشن آئندہ چھ ماہ گزرنے تک پیش نہیں کیا جا سکے گا۔ (ص ۵۰ تا ۵۳)
مناسب ہو گا کہ اس فرصت میں قومی اسمبلی، سینٹ، اسلامی کونسل، صوبائی گورنر اور عدالتہائے عالیہ کو سپریم کورٹ کے ججوں کے بارے میں نئے آئین میں جو ضوابط مقرر کئے گئے ہیں ان کی مختصر تفصیل سے بھی آپ کو آگاہ کر دیا جائے جو امید ہے ملکی مسائل کے سمجھنے میں مفید رہے گی۔
۱۔ پارلیمنٹ دو ایوانوں پر مشتمل ہو گی۔ ایک کو قومی اسمبلی دوسری کو سینٹ کہا جائے گا اور صدر کو پارلیمنٹ برخواست کرنے کا اختیار ہو گا۔
۲۔ قومی اسمبلی قانون کے مطابق براہِ راست اور آزادانہ طور پر منتخب ہونے والے دو سو ارکان پر مشتمل ہو گی۔
۳۔ صدر، وزیر اعظم کے مشورہ سے قومی اسمبلی کو توڑ سکے گا بشرطیکہ اسمبلی میں اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش نہ کی جا چکی ہو۔
۴۔ ایوان کی ساری کارروائی صدر کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق کی جائے گی۔
۵۔ پارلیمنٹ کی کسی کارروائی کی قانونی حیثیت کو طریق کار میں بے قاعدگی کی بنیاد پر عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔
۱۔ سینٹ ۲۳ ارکان پر مشتمل ہو گی، ہر صوبائی اسمبلی ۱۴؍ ارکان منتخب کرے گی اور ہر دو سال بعد یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ہر رکن کی میعاد چار سال ہو گی۔ ۲/۱ کی دو سال اور ۲/۱ کی چار سال۔
۲۔ سینٹ کو معزول نہیں کیا جا سکے گا۔
۳۔ جو مسودہ قانون قومی اسمبلی میں منظور ہو اسے سینٹ میں پیش کیا جائے گا۔ اور اسے وہ نوے دن میں بہ ترمیم یا بلا ترمیم منظور کرے گا یا مسترد کر دے گا۔ اگر اس عرصہ میں کچھ نہ کیا گیا تو مسودہ قانون پاس تصور کیا جائے گا۔ سینٹ خاموش رہا تو اسے صدر کی منظوری کے لئے پیش