کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 30
۵۔ حجیت حدیث کے مختلف مراتب ہیں جن کا تعین قرآن کے الفاظ اور ان کے معنی کے پیش نظر کیا جائے گا۔
۶۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ حدیث کو صحیح طریقہ سے نہ باور کیا گیا اور نہ سمجھا گیا۔ انہوں نے حضرت عمررضی اللہ عنہ پر فہم قرآن کے باب میں اعتراض بھی کیا۔
۷۔ حدیث صرف قرآن کی تائید کر سکتی ہے اس کے خلاف نہیں جا سکتی۔
واضح ہو کہ جناب مؤلف نے حدیث کے باب میں یہ تمام حقائق اپنے ذہن سے گھڑ کر نہیں بیان فرمائے بلکہ ہر بات کو شرعی دلائل اور فقہا و مفسرین کے اقوال سے ثابت فرمایا ہے تو اب کیا یہ سوال نہیں پیدا ہوتا کہ جن اصحاب کو قرآن و حدیث کا یہ مقام معلوم ہے اگر کسی مسئلہ میں وہ اپنے ہی مسلمہ نظریات کے برعکس قرآن کی مخالف احادیث سے کوئی حکم اخذ کریں یا قرآن کے خلاف احادیث کو صحیح قرار دیں یعنی حدیث کے باب میں قرآن کو پس پشت ڈال دیں تو گمراہ نہیں بلکہ قرآن کے دشمن نہیں ہیں۔
زیر نظر کتاب میں مرتد کے مستوجب قتل ہونے کے باب میں جناب مؤلف کی تمام تحقیق یہ ہے کہ کسی مفسر یا محدث یا فقیہ نے قرآن کو وہ مقام نہیں دیا جو حدیث کے مقابلہ میں دینا چاہئے۔ یعنی قتل مرتد کی سزا قرآن کے خلاف ہے۔ جو اصحاب اس کے قائل ہیں وہ مقام حدیث سے آگاہ ہونے کے باوجود صریحاً بے ایمانی سے کام لے رہے ہیں یا کم از کم حماقت میں مبتلا ہیں کہ احادیث سے ایسا حکم مستنبط فرماتے ہیں جو قرآن کے خلاف ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی کتاب کے باب ارتداد و سنت کے تحت کئی طریقوں سے اپنے دعوے کی تائید میں چند دلائل پیش فرمائے ہیں۔
ایک تو یہی کہ قرآن اس حکم کے صریحاً خلاف ہے کیونکہ اس میں صاف لا اکراہ فی الدین آیا ہے۔
دوسرے یہ کہ احادیث کا مفہوم متعین کرنے میں اختلاف ہے۔
چوتھے یہ کہ احادیث قابل تاویل ہیں اس کے جو معنی لیے جاتے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔
پانچویں یہ کہ اس حکم کے پس منظر کو سب نے نظر انداز کر دیا ہے۔ دراصل ہر مرتد کو قتل کا حکم نہیں بلکہ صرف مرتد حربی کو قتل کا حکم ہے۔
ان تمام دلائل کا تجزیہ کیا جائے تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ محدثین و فقہا نے آیت لَآ اِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ