کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 29
لا اکراہ فی الدین کا یہی مفہوم ہے جو عقل و عدل و انصاف کے عین مطابق ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اسلام مسلمانوں کو غداری کی اجازت دیتا ہے اور اس جرم کو باوجود غدر صریح کے آزادی ضمیر کے خلاف اور قابل تعزیر نہیں سمجھتا۔ یہاں یہ نکتہ بھی فراموش نہ کرنا چاہئے کہ کسی کافر کو جبراً مسلمان بنانا یا کسی مسلمان کو جبراً کافر بننے سے باز رکھنا دو مختلف امور ہیں۔ پہلی صورت بلاشبہ جبر ہے لیکن دوسری صورت میں مطلق شائبہ جبر نہیں ہے بلکہ عین خیر ہے۔ کسی سپاہی کو سرکشی کی پاداش میں گولی مار دی جائے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حکومت زبردستی لوگوں کو سپاہی بنانا چاہتی ہے بلکہ برعکس اس کے یہ تو سپاہی بننے کی سخت ذمہ داریوں کا احساس دلا کر لوگوں کو سپاہی بننے سے خائف کرنا ہے۔ اسی طرح مرتد کو قتل کرنے کے حکم میں لوگوں کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ مسلمان ہونے سے پہلے سوچ سمجھ کر دین اسلام اختیار کرنا چاہئے۔ گویا یہ امر ایک قسم کی تخویف اور اسلام لانے میں رکاوٹ کا موجب ہے۔ اسلام کے لئے نہ تشویق ہے نہ ترغیب نہ جبر نہ زبردستی۔ اس کو جبر قرار دینا ہی ایک بنیادی غلطی ہے باوجود اس کے وہ اصحاب جو کہتے ہیں کہ قرآن حکیم میں مرتد کی سزا قتل نہیں ہے ان کا مطلب صرف یہ ہے کہ بصراحت یہ حکم موجود نہیں ہے اس حکم کی صراحت احادیث میں ہے۔ لیکن مؤلف کتاب نے ایسی احادیث پر جن سے یہ حکم ثابت ہے تبصرہ کرنے سے پہلے پانی کے آگے باڑ باندھنے کی کوشش فرمائی ہے۔ ص ۵۶ تا ۵۹۔ اور احادیث سے ثابت ہونے والے احکام کے متعلق یہ تاثر دینا چاہا ہے کہ وہ کمزور، محل نظر، مشتبہ اور بے حقیقت ہیں۔ چنانچہ تمہیداً انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ: سنت رسول اللہ قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ قرآن سے ثابت شدہ امر کو کوئی شخص بدل نہیں سکتا۔ خواہ وہ کتنی ہی بڑی شخصیت رکھتا ہو۔ ۱۔ حدیث کو قرآن کے بعد دوسرا رجہ حاصل ہے۔ ۲۔ حدیث کو قرآن کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ ۳۔ قرآن کے خلاف خبر واحد کو ترک کر دیا جائے گا۔ ۴۔ موطا امام مالک، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو اعتبار کے لحاظ سے پہلا درجہ حاصل ہے۔ اس کے بعد دوسری صحاح کا درجہ ہے۔ محدثین ان دو کو قابلِ وثوق خیال فرماتے ہیں۔ باقی کتب احادیث تیسرے چوتھے درجہ پر ہیں۔