کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 27
وہ جبر نہیں ہے جیسا کہ علامہ زجاج کی عبارت بالا سے مترشح ہوتا ہے اور اس کی تائید لغت سے ہوتی ہے۔ اکراہ کے معنی ہیں بری بات پر مجبور کرنا۔ برے کام پر کسی کو آمادہ کرنا یعنی نیک کام پر مجبور کرنا جرم نہیں ہے۔ (المنجد، مصباح) میں نہایت ادب سے عرض کروں گا کہ وہ قرآن قانونی لا اکراہ فی الدین کا تجزیہ خود اپنی اس منصبی حیثیت سے فرمائیں جو بحیثیت قاضی القضاۃ مملکت پاکستان کے ان کو حاصل رہی ہے۔ جبر بلاشبہ ایک جرم ہے لیکن مجھے امید نہیں کہ انہوں نے بحیثیت جج کبھی کسی ایسے شخص کو جبر کی پاداش میں واجب التعزیر قرار دیا ہو۔ جس نے جبراً اقدام قتل یا اقدام خود کشی سے کسی کو باز رکھا ہو یا اخلاقی اور قانونی فعل کے اقدام پر مجبور کیا ہو۔ ناجائز ہتھیائی ہوئی چیز کو جبراً چین لینا، چوری، ڈاکہ زنی اور اغوا یا آبرو ریزی سے جبراً باز رکھنا یا بچوں کو مار پیٹ کر سبق یاد کرانا یا جبر کر کے دوائی پلانا کیا ان میں سے کوئی بات بھی قانون آزادیٔ ضمیر کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعزیرات کی بعض قسمیں انتہائی شدید ہونے کے باوجود جبر نہیں کہی جا سکتیں۔ بلکہ حسن معاشرہ کے لوازمات میں سے ہیں۔ اکراہ کے جو تین معانی بتائے گئے ہیں فقہاء نے اس کی رو سے اور کتاب و سنت کی روشنی میں ہر معنی کو ملحوظ رکھا ہے۔ چنانچہ پہلے معنی کی رو سے شریعت اسلامیہ میں کسی شخص کو جبراً مسلمان بنانے کی ممانعت ہے۔ دوسرے معنے کی رو سے جبراً بنائے ہوئے مسلمان کو حقیقی معنوں میں مسلمان نہیں سمجھا گیا۔ چنانچہ جبراً مسلمان بنایا ہوا شخص اگر مرتد ہو کر دوبارہ پھر اپنے دین میں چلا جائے تو اس پر ارتداد کی سزا (موت)عائد نہ ہو گی کیونکہ درحقیقت وہ کافر ہی تھا کہ مرتد نہیں ہوا۔ تیسرے معنی کی رو سے فقہا نے دین کے معنی اسلامی آئین شریعت قرار دیئے ہیں جو سرتاپا خیر ہیں اگر جبراً دین سے پھر جانے سے کسی کو روکا جائے تو وہ جبر نہیں ہے۔ جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر فتح الرحمٰن کے حاشیہ میں فرمایا ہے کہ (دین کے باب میں)اگر جبر کیا جائے و وہ جبر نہیں کہلائے گا۔ مؤلف کتاب نے شاہ صاحب رحمہ اللہ کے اس خیال پر کہ حجب اسلام اہر شد گو یا جبر کردن نیست اگرچہ جبر باشد (یعنی اسلام کی صداقت عیاں ہو چکی ہے اب نجات اسی دین میں ہے۔ لہٰذا اس کے لئے کوئی جبر کیا جائے تو وہ جبر نہیں ہے)اعتراض فرمایا ہے اور لکھا ہے کہ شاہ صاحب کا یہ