کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 26
انہوں نے اس آیت کا شانِ نزول بتایا ہے کہ بیشتر اصحاب بیان کرتے ہیں کہ انصار کی کچھ اولاد یہودی اور کچھ نصرانی ہو گئی تو ان کے والدین نے ان کو جبراً مسلمان کرنا چاہا تو یہ آیت نازل ہوئی (کہ ان کو جبراً مسلمان نہ بنایا جائے) اس کے متعلق آگے چل کر علامہ ابن حیان کہتے ہیں۔ قیل لا یکرہ علی الاسلام من خرج الٰی غیرہ کہ ایک قول ضعیف یہ ہے کہ جب کوئی اپنے دین سے پھر جائے تو اسے اسلام لانے پر مجبور نہ کیا جائے۔ مؤلف کتاب موصوف کو ایک غلط فہمی تو یہ ہوئی اس میں اسلام سے پھر جانے کا ذِکر ہے حالانکہ یہاں ان کے اپنے آبائی دین سے پھر جانے کا ذِکر ہے۔ دوسری غلط بیانی یہ کی گئی کہ ابن حیان نے اس خیال کو فوقیت دی ہے حالانکہ اس کے لئے علامہ موصوف نے قیل کا لفظ استعمال کیا ہے جو ایسے خیال کے لئے استعمال ہوتا ہے جس سے خود عاقل کو اتفاق نہ ہو اور اسے کمزور تصور کرتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کا نام تک نہیں لیا جس نے رائے ظاہر کی۔ اس کی بجائے خود علامہ ممدوح نے کلبی کا قول لفظ قال سے نقل فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک قول قوی ہے۔ قال الکلبی لا اکراہ بعد الاسلام العرب ویقبل الجزیه یعنی عرب کے مسلمان ہو جانے کے بعد کسی کو جبراً مسلمان کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ کافروں سے جزیہ لیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے قول زجاج کو بھی قوی قرار دیا ہے۔ وقال الزجاج لا تنسبوا الی الکراھة من اسلم مکرھا۔ یعنی اگر کوئی مجبوراً بھی مسلمان ہو جائے تو اسے یہ نہ کہنا چاہئے کہ وہ مجبوراً مسلمان ہوا (بلکہ اسے مسلم ہی کہا جائے) غرض ابن حیان تو کہتے ہیں کہ یہ قول کمزور ہے اور مؤلف کتاب فرماتے ہیں کہ ابن حیان اس کو قوی کہتے ہیں۔ اب اس کو غلط بیانی کے سوا کیا کہا جائے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جناب مؤلف نے لا اکراہ فی الدین کا مفہوم سمجھنے کی کوشش نہیں فرمائی بلکہ مسٹر پرویز کے قول پر بھروسہ کر لیا ہے۔ دین میں جبر نہ ہونے کے تین مفہوم ہیں۔ ایک تو یہ کسی کو جبراً مسلمان نہ بنایا جائے۔ دوسرے یہ کہ جبراً مسلمان نہیں بنایا جا سکتا۔ اور تیسرے یہ کہ دین کے لئے جبر بھی کیا جائے تو