کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 25
یہی صورت حال عقلاً اور دیانۃً قرآن و حدیث کے بارے میں ہے کہ آیاتِ قرآنِ حکیم کی وہی تعبیر درست ہے جو احادیث اور سنت رسول سے ثابت ہو یا خلفائے راشدین و صحابہ رضی اللہ عنہم کے فیصلوں کے مطابق ہو یا پھر وہ تعبیر درست ہے جو قرآنی بصیرت رکھنے والے۔ دینی علوم کے ماہرین یا فقہاء و مجتہدینِ ملت نے کی۔ بالخصوص وہ اصحاب جن کا ورع و اتقا اور خوف و خشیت اللہ مسلمہ حقائق ہوں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ عدالتِ عالیہ کے فیصلوں کی بنا پر قانون کی جو تعبیر کی جاتی ہے کوئی شخص اس فیصلہ کے خلاف آواز اُٹھائے تو مجرم اور قابلِ تعزیر اور بض صورتوں میں توہین عدالت کی پاداش میں سزا کا مستوجب ہوتا ہے تو آخر کوئی مسلمان یہ کیسے گوارا کر سکتا ہے کہ قرآن احکام کا جو فیصلہ صاحبِ وحی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے خلاف ایک ایسے شخص کی بات کو تسلیم کیا جائے جو قانونِ خداوندی کی زبان تک سے ناواقف ہو۔ غرض قرآن پر حدیث کے قاضی ہونے کی مثال وہی ہے جو قانونِ ملک پر عدالت عالیہ کے قاضی ہونے کی ہے پھر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اگر ملک کے مختلف حصوں میں جس قدر عدالت ہائے عالیہ ہیں۔ ان سب کے فیصلوں پر تعزیرات ملکی کی کسی دفعہ کا ایک ہی مفہوم لیا گیا ہو اور اس کے خلاف کسی گاؤں کا چودھری یہ دعویٰ کرے کہ وہ سب فیصلے غلط ہیں صحیح صرف وہ فیصلہ ہے جو چودھری صاحب نے ان سب کے خلاف کیا تو ایسے شخص کو لوگ دیوانہ کہیں گے۔ غرض عدالت کے فیصلے قانون ملکی کے لئے اسی طرح قاضی کی حیثیت رکھتے ہیں جس طرح احادیث اور فقہاء کے فیصلے قرآنی قانون کے لئے۔ بندۂ عاجز یہ سمجھنے سے قطعاً قاصر ہے کہ مؤلف جیسے فاضل انسان نے اس باب میں مسٹر پرویز کی تقلید کیوں فرمائی۔ اس سے بھی زیادہ تعجب مجھے اس بات پر ہے کہ انہوں نے مفسر ابنِ حیان کی تفسیر بحر المحیط سے بھی اصل مفہوم کے خلاف نہایت ہی غلط نتیجہ اخذ فرمایا اور نہج استدلال کذب بیانی کی حد تک پہنچتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ: نہایت ہی اہم اور معنی خیز وہ بات ہے کہ علامہ ابن حیان قرآن کی اس آیت لا اکراہ فی الدین کی اس تعبیر کو فوقیت دیتے ہیں جو اس کے الفاظ اور مفہوم کے عین مطابق ہے یعنی وہ شخص بھی جو اسلام کو ترک کر کے کوئی اور مذہب اختیار کرے اسے اپنے سابقہ مذہب میں واپس لانے کے لئے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بیان انتہائی گمراہ کن ہے۔ ابن حیان کی تفسیر جلد ۲ ص ۸۱ کو ملاحظہ کیا جائے۔ یہاں