کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 23
اپنے اوپر رونا چاہئے۔ استاد عثمان الکعاک نے کہا کہ مبشرین کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ مسلمان نوجوان اپنے اسلامی علوم عربی ادب، قرآن و حدیث فقہ میں اپنے علماء کے بجائے مغرب کے مستشرقین کی شاگردی اختیار کریں اور عیسائی ماہرین اسلام مستند مسلم علما کی جگہ لیں۔ اس مقصد میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں اور تقریباً ایک صدی سے مومن عالم کی توہین اور دینی اسلامی علوم میں بھی مشرک کی تکریم کا سلسلہ جاری ہے اور ہنوز ختم ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ ازہر کے دکتور الغزالی نے اپنی تعقیب (اظہار رائے)کے دوران سارا وقت اسی پر صرف کیا اور اسی نقطہ کو ابھارا۔ انہوں نے کہا مستشرقین نہ تو عربی پڑھاتے ہیں اور نہ قرآن حدیث کا درس دیتے ہیں۔ اور نہ ہی وہ کسی لحاظ سے بھی اس کے اہل ہیں۔ وہ تو صرف ایک انداز فکر دیتے ہیں۔ نوجوان مسلم طالب علم کی آنکھوں پر ایک رنگین چشمہ لگا دیتے ہیں جس سے وہ اپنے دین اور اپنے تہذیبی ورثہ میں شک کرنے لگتا ہے اس کا نام نقد ہے۔ ظاہر ہے کہ جس نقد کی ابتداء اپنے مستند علماء کی توہین سے ہو اس کی انتہا کیا ہو گی۔ عربی کی بابت بھی یہ ہے کہ ادب پڑھنے پڑھانے کے بجائے مستشرقین کی رائے اور تبصرے ازبر ہو جاتے ہیں اور انہیں کے اقتباسات پر ساری عمر گزر جاتی ہے۔ دکتور الغزالی نے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ مسلم حکومتیں اس مال کے ضیاع اور ایمان کے خسارہ کو روکنے کے لئے سخت تدابیر اختیار کریں۔ اگر سائنسی علوم میں مغرب کی غلامی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مقدر ہو چکی ہے تو دینی علوم، عربی ادب، قرآن و حدیث میں مشرک عیسائی مبشرین اور یہودی مستشرقین کی شاگردی چہ معنی؟ اکبر کا قول یاد آتا ہے۔ ’’رقیب سرٹیفکیٹ دیں تو عشق ہو تسلیم‘‘ (مسلسل)