کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 22
چار یا پانچ قومیتیں آہستہ آہستہ پل رہی ہیں جس روز انہیں بال و پر نصیب ہوئے اس روز انہیں متحد رکھنے کے لئے روسی امپریلزم ناگزیر ہو جائے گا۔ روسی مارکہ قومیتوں کے کسی جمہوری نظام میں منسلک رہنے کی کوئی مثال نہیں۔ ایک آمرانہ جابرانہ مرکزی نظام قومیتوں کے تصور کے ساتھ لازم ملزوم ہے گو قبل از وقت اس پر گفتگو نہیں کی جاتی۔
یہ مستشرقین اور مبشرین تاریخ اور علم الآثار (آر کیالوجی)کو بھی اپنے اغراض کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ مسلم ممالک کی قدیم تاریخ کریدتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ اسلام سے پہلے یہ ممالک کیسی سیاسی اور تہذیبی عظمت کے مالک تھے۔ گویا اسلام ان کے زوال کا باعث ہوا۔ جب ایک مصری اہرام پر فخر کرنے لگے اور یہ بھول جائے کہ اسلام نے مصریوں کو بدترین غلامی، انسان کی بندگی، اقتصادی ظلم اور سماجی ناہمواری سے نجات دلائی و ظاہر ہے کہ دشمنان اسلام کا مقصد پورا ہوا۔ اسی کا ایک اہم پہلو یہ ہے جس کی طرف استاد علال فاسی نے توجہ دلائی اور وہ یہ کہ استعماری حکومتیں شریعت کو میدان سے خارج کرنے کے لئے مقامی عرف اور رواج کو زندہ کر کے اسے قانونی تحفظ دیتی ہیں۔ اس طرح ایک مرتبہ جب شریعت ہٹ جائے تو عرف اور رواج کو آگ چل کر اجنبی قانون سے بدلنا آسان ہو جاتا ہے فرانسیسی حکومت نے خاص طور پر بربری علاقوں میں یہی کیا۔ پہلے قبائلی عرف اور رواج کو زندہ کیا پھر اسے فرانسیسی قانون سے بدل دیا۔
استاد علال فاسی نے ایک اور بات بڑی اچھی کہی اور وہ یہ کہ جب عیسائی مبشرین مسلمانوں کو عیسائی بنانے سے مایوس ہو گئے تو انہوں نے اسلام میں ملاوٹ ڈالنے کی کوشش تیز تر کر دیں اور اس کا ذریعہ مستشرقین کے نام نہاد علمی کارناموں کو بنایا۔ استاذ عثمان الکعاک نے اس کی تفصیلات دیتے ہوئے بتایا کہ عربی لغت اور شعر و ادب کی بہت سی کتابیں یسوعی پادریوں نے لبنان سے شائع کی ہیں الاب شیخو نے ’شعراء النصرانیہ‘ لکھی ہے جس میں بے شمار عربی شاعروں کو نصرانی بنا ڈالا ہے۔ اس سے تبشیری مقاصد پر پردہ پڑ جاتا ہے اور مبشرین کو موقع ملتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے قریب آئیں اور انہیں متاثر کر سکیں۔ یہی مبشرین ساری دنیا میں مسلمانوں کے احوال کا تازہ بہ تازہ نوبہ نو مطالعہ کرتے رہتے ہیں مثلاً افریقہ میں اسلام کی بابت تری منگھم(Trimingham)کی تصانیف۔ مسلمانوں کے لئے یہ بات باعث افسوس و ندامت ہے کہ نہ ان کے اپنے ایسے ادارے ہیں نہ ایسے علماء جو لیاقت، تندہی اور لگن کے ساتھ ایسے کام انجام دیں۔ ہماری جامعات کے اساتذہ تک الا ماشاء اللہ، انہیں مبشرین اور مستشرقین کی شاگردی پر فخر کرتے ہیں۔ دراصل اس بارے میں کسی غیر سے شکایت بے جا ہے۔ ہمیں خود