کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 21
کے لیڈروں کا آئے دن پاکستان میں استقبال ہوتا رہتا ہے اور علال فاسی جیسے دانا اور مخلص دوستوں سے پاکستانی عوام نا آشنا ہی رہتے ہیں۔ خیر! علال فاسی علالت کی وجہ سے الجزائر کے اجتماع میں شریک نہ ہو سکے لیکن انہوں نے اپنا مقالہ لکھ کر بھیجا تھا۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ جب مغرب کی جنگ آزادی پورے زور سے جاری تھی تو ایک طرف تو مجاہدین نے پاپائے روم سے اظہار ہمدردی کی جو اپیلیں کیں ان کا انہوں نے جواب تک نہ دیا۔ دوسری طرف روس نے اور بائیں بازو کی جماعتوں نے مجاہدین آزادی کا ساتھ دینے کی بجائے ڈی گال کی حکومت کی حمایت کی۔ جن ماسکو نواز حضرات کو اس سے اچنبھا ہو وہ سن لیں اور سمجھ لیں کہ روس کا منصوبہ یہ تھا کہ بالکل اتحاد سوفیاتی کی طرف پر ایک اتحاد فرانسیسی قائم ہو اور اس میں شمال افریقہ کے مسلم ممالک جن پر فرانس کا تسلط تھا ان کی حیثیت وہی ہو جو اتحاد سوفیاتی کے اندر وسط ایشیا کے مسلم ممالک کی ہے!!! یہ وہی ’’قومیتوں‘‘ کی آزادی و خود مخاری کا نسخہ ہے جسے لینن کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے اور جس کا اس قدر ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ یہ نسخہ دو اجزا سے مرکب ہے۔ پہلا جزو یہ ہے کہ ہر قسم کے اختلافات کو جلا دو۔ مقامی تعصبات کو ہوا دو۔ مصنوعی طریقوں سے نیشنلیٹز کو جنم دو اور کاغذ کے پرزے پر آزادی اور خود مختاری کا تحفہ دے کر طفل تسلی کر دی۔ دوسرا جزو یہ ہے کہ جب ہر نیشنلٹی انفرادی طور پر اتنی کمزور ہو جائے کہ کس جدوجہد کے قابل نہ رہے و سب کو نظریاتی، فوجی آمرانہ جابرانہ مرکزی نظام کے تحت آہنی اتحاد کی گرفت میں ایسا جکڑو کہ آزادی اور خود مختاری کے استعمال کا خیال تک نہ آنے پائے۔ بالخصوص دین و مذہب کی آزادی حرام قرار پائے اور غداری کے مترادف ہو جائے۔ اس کے بعد بھی اگر ذرا خدشہ ہو تو ایک آہنی پردہ ڈال کر ساری دنیا سے تعلق منقطع کر دو۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شمالی افریقہ میں فرانس کی حکومت نے اور عیسائی مبشرین نے جو کچھ کہا تھا وہ روس کے مقاصد اور اس کے طریقہ کار کے عین مطابق تھا۔ متعدد عرب اور بر بر قومیتیں دردِ زہ کے مرحلہ سے گزر رہی تھیں۔ فرانس کی حکومت اگر ناپام بم گرا کر اپنے جبر و استبداد کو بچا رہی تھی تو یہ تو وہ گناہ ہے جو روس میں بھی کیا جاتا ہے۔ مقصود مسلم ممالک کی آزادی نہیں بلکہ یہ کہ فرانس کی حکومت روس کی شاگردی اختیار کرے اور مسلم ممالک کے ساتھ وہی سلوک کرے جو روس نے وسط ایشیا کے مسلمانوں کے ساتھ کیا ہے۔ وقت جیسے تیسے گزر ہی گیا البتہ روس کی اس معاندانہ پالیسی کا ایک اچھا نتیجہ برآمد ہوا کہ شمال افریقہ کے مسلم ممالک میں آزادی کی تحریکیں تمام تر اسلامی محرکات کے تابع رہیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کو یہ موقع نہ مل سکا کہ وہ ان تحریکات میں عمل دخل پیدا کر کے ان کا منہ موڑیں اور اپنا اُلو سیدھا کریں۔
جب یہ حقائق تابڑ توڑ سامنے آرہے تھے تو میں بیٹھا پاکستان کے احوال پر غور کر رہا تھا۔ یہ جو