کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 20
دیتے ہیں کہ جو زبان تم گھر میں بولتے ہو جو تمہاری مادری زبان ہے اسی کو لکھنے پڑھنے کا ذریعہ بناؤ اور قرآن کی زبان کا بوجھ جو تم لادے پھرتے ہو اس سے چھٹکارا حاصل کرو۔ چودہ صدیوں میں زبان کا بدل جانا بالکل فطری امر ہے۔ تم قرآن کی خاطر اس فطری تغیر کو روکنا چاہتے ہو اور اس سے انکار کرتے ہو۔ علم کے میدان میں تمہارے پیچھے رہ جانے کا یہی سبب ہے۔ فرانس کی حکومت اور مبشرین دونوں نے مل کر سب سے زیادہ زور عرب اور بربر کے اختلافات کو ہوا دینے میں لگایا۔ بربریوں سے کہا کہ عربی زبان عربوں کی غلامی کی علامت ہے عربوں نے تمہاری زبان کو کچل دیا ورنہ اس میں کیا نہیں ہے۔ یہاں تک آگے بڑے کہ بربر تو غالی نسل سے ہیں جس نسل سے کہ فرانس کے باشندے ہیں۔ اس لئے ان کا فرانس کے ساتھ متحد ہونا ایک طبیعی امر ہے۔ علم اجناس البشر(Anthropology)کی مدد سے ثابت کیا کہ ایک بربری کے اور ایک عربی کے دماغ کی ساخت بالکل جداگانہ ہے۔ یہ فتنہ بڑے زور سے اٹھا۔ چند نوجوان جو پختہ شعور نہیں رکھتے تھے وہ گمراہ ہوئے لیکن بہت جلد یہ بات عیاں ہو گئی کہ عربوں کے اتحاد کی ضمانت ’عربیہ فصحی‘ کلاسیکی عربی اور قرآن کی زبان ہے۔ مقامی بولیوں کے تعصب سے یہ رشتہ ٹوٹا تو پھر وہ دین دنیا کہیں کے نہیں رہیں گے۔ بربریوں کے دل میں اسلام کتنا گہرا بیٹھا تھا اس کی بابت بھی فرانسیسی استعمار اور تبشیر دونوں کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ وہ یہ بھول گئے تھے کہ صدیوں عربوں سے کہیں بڑھ چڑھ کر بربریوں نے جہاد کی روح کو محفوظ رکھا تھا جیسے ہی انہیں پتہ چلا کہ یہ انہیں اسلام سے برگشتہ کرنے اور فرانس میں ضم کرنے کی سازش ہے فوراً شدید ردِ عمل ہوا اور فرانسیسی بربری مدارس سے نفرت و بغاوت کے شعلے اُٹھے۔ ایک واقعہ ہے کہ مدرسہ میں ایک چھوٹی بچی کو فرانسیسی زبان کی ایک نظم یاد کرائی گئی جو کچھ اس طرح شروع ہوتی تھی۔ ’اے چچا گرجا کی گھنٹی بج رہی ہے، جا دعا کر۔‘ شام جب وہ گھر لوٹ رہی تھی تو از خود اس نظم کو بدل کر یوں گا رہی تھی۔ ’میرے چچا! موذن نے اذان دے دی وضو کر اور جا نماز پڑھ۔‘ علال فاسی مغرب (مراکش)کے تجربہ کار سیاست دان اور لیڈر ہیں۔ جہاد آزادی میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ ایک نادر بات یہ ہے کہ وہ بیک وقت عالم بھی ہیں اور سیاسی لیڈر بھی۔ ایک طرف عربی کی قدیم لغت ’مختصر العین للزبیدی‘ ایڈٹ کرتے ہیں دوسری طرف اپنی علمی بصیرت سے سیاست کو روشن کرتے ہیں۔ مجھے ان سے نو سال قبل ملنے کا اتفاق ہوا تھا اس کی بنا پر میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ ہمارے بہت سے پاکستانی لیڈروں سے بڑھ کر پاکستانی ہیں۔ افسوس کہ ’’اتراشحنہ‘‘ قسم