کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 17
اور تبشیر دونوں ایک دوسرے کے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب پرتگال اور سپین میں افریقہ کی تجارت کی بابت ھگڑا ہوا تو پاپا نیقولا خامس نے یہ فیصلہ دیا کہ کینیا تک افریقہ کی سرزمین پر قبضہ کرنا پرتگال کا حق ہے اور اگر کسی دوسری مسیحی طاقت نے اس کی مزاحمت کی تو اسے کنیسہ سے نکال دیا جائے گا۔ بعد کو جب کولمبس کے اکتشافات کے نتیجہ میں اسپین کی بحری طاقت بڑھ گئی تو ۱۴۹۳ء میں پاپا الگزینڈر نے دنیا کے مختلف حصوں کو پرتگال اور اسپین کے منطقۂ نفوذ Sphere of Influence میں تقسیم کیا۔ اس سے بڑھ کر سبق آموز یہ بات ہے کہ انیسویں صدی میں جب فرانس میں دین اور دولت (کنیسہ اور حکومت)میں مکمل جدائی ہو چکی تھی اور سیاست میں کنیسہ کا عمل دخل گوارانہ تھا عین اسی وقت فرانس کی حکومت الجزائر میں کنیسہ اور اس کے کارکن مبشرین (مشنریز)کو اپنی سیاست کی تنقید کا مؤثر ادارہ تصور کرتی تھی اور اسی اعتبار سے اس کی سرپرستی کرتی تھی۔ گھر میں تو کنیسہ سے قطع تعلق اور گھر سے باہر کنیسہ کے ہاتھ میں ہاتھ۔ وجہ ظاہر ہے کہ مستعمرات میں حکومت اور کنیسہ دونوں کا مقصد مغلوب مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے اپنا غلام اور تابع بنانا تھا اور یہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ انہیں ان کے دین سے ہٹایا جائے اور اسلام کی جڑ کاٹی جائے۔ یہ مبشرین جو رحمت کا پیام لے کر آئے تھے ان کے وحشی اعمال کی ایک مثال یہ ہے کہ ۱۸۶۸ء میں انہوں نے الجزائر کے قحط کے حالات میں ۱۷۵۳ یتیم عیسائی بنانے کے لئے بھیج دیئے (ایسے واقعات ہندوستان کی تاریخ میں بھی ملتے ہیں)
انیسویں صدی تک مسلمانوں کی غیرت کا یہ حال تھا کہ وہ ان عیسائی مبشرین سے حکومت سے کسی اقدام کا انتظار کیے بغیر خود ہی نمٹ لیتے تھے۔ وہ ان کو بجا طور پر دشمنِ اسلام اور استعمار کا آلۂ کار اور جاسوس سمجھتے تھے اور دیکھتے ہی انہیں قتل کر دیتے تھے۔ غیرت مند مسلم عوام ان عیسائی مبشرین کو اپنے درمیان برداشت کرنے پر اس وقت مجبور ہوئے جب عیسائی حکومتوں نے کمزور مسلمان حکومتوں سے معاہدے کر کے امتیازات حاصل کیے۔ پھر بھی عرصہ تک یہ عیسائی مبشرین اندرونی علاقوں میں تاجروں کا بھیس بدل کر جاتے تھے۔ مسلمانوں کی رواداری کی اس سے بڑھ کر کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ یہ دشمنانِ اسلام یہودی تاجروں کے بھیس میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے تھے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ’’شارل دوفوکو‘‘ یہودی کے لباس میں تونس اور مغرب کے علاقہ میں گھومتا پھراتا آنکہ اس کا بھانڈا پھوٹ گیا اور ایک مسلمان کی گولی نے اس کا کام تمام کر دیا۔ آج یہ حال ہے کہ مسلمانوں کو اور مسلمانوں کی حکومتوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ رحمت کا پیام لانے والے صلیب بردار، ان کے، ان کی سیاسی آزادی کے اور ان کے دین کے دشمن ہیں۔