کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 16
یکساں ہیں۔ مختلف سیاسی وحدتوں کے وجود سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن استعماری فطاقتوں نے اقلیمیت قومیت اور علاقائی عصبیت کا بیج بو دیا ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر مسلم ممالک بڑی طاقتوں کی رسہ کشی کے سیاق میں مختلف بلکہ متضاد میلانات و رجحانات رکھتے ہیں اور ان کی بڑی شد و مد سے حمایت کرتے ہیں۔ ماضی میں یہ ہوا کہ ابتدا ہی سے وحدتِ اسلامی کا جامع منصوبہ باندھا گیا۔ اور بڑی بڑی توقعات اس سے وابستہ کی گئیں۔ واقعیت کا تقاضا یہ ہے کہ جن مقاصد پر مکمل اتفاق رائے ہو ان سے ابتداء کی جائے خواہ یہ مقاصد کتنے ہی محدود کیوں نہ ہوں، اور اس اتحاد کو خود بخود بڑھنے کا موقع دیا جائے اتنا بے شک ضروری ہے کہ مختلف ادارے جو کسی نہ کسی دائرہ میں اتحاد کے لئے کوشاں ہیں انہیں ایک مرکزی ادارہ میں جمع کر دیا جائے۔ تیسرا موضوع تھا التبشیر فی العالم الاسلامی۔ یعنی عالمِ اسلامی میں عیسائی مشنریوں کی سرگرمیاں۔ یہ بات بڑے افسوس کے ساتھ کہی گئی کہ مسلم ممالک کی سیاسی آزادی اور استقلال کے بعد اس موضوع کو سرے سے ختم ہی ہو جانا چاہئے تھا اور استعمار کی تاریخ کا جزو بن کر ماضی کی داستان میں جگہ پانا چاہئے تھا۔ اس کے برعکس یہ موضوع آج پہلے سے کہیں زیادہ تازہ، خطرناک اور فوری اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ایک دل خراش حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد سے تمام مسلم ممالک میں عیسائی مشنریوں کی سرگرمیاں نئے وسائل اور نئے اسالیب کے ساتھ بڑے پیمانے پر اور بڑی سینہ زوری کے ساتھ نمودار ہوئیں اور روز افروں تیزی کے ساتھ آج بھی بلا روک ٹوک جاری ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کوئی کہے یا نہ کہے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ پس ماندہ ملکوں کو آزادی دیتے ہی یورپ کی ترقی یافتہ قوموں نے ان کو صنعتی ترقی کا خواب دکھلایا اور از خود دروازہ پر آکر طرح طرح کی امداد(Aid)کی پیشکس کی۔ یہ امداد ایک ایسا جال ہے کہ طائر زیرِ دام جتنا باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے اتنا ہی اس کے پھندے مضبوط ہوتے جاتے ہیں۔ بالخصوص مسلم ممالک کی اس احسان مندی سے عیسائی مشنری تنظیموں کے حوصلے بڑھے اور ان کے کارکنوں کو اپنے منصوبوں پر عمل کرنے کے مواقع میسر آئے۔ تاریخ میں ہمیشہ استعمار اور کنیسہ دونوں ایک دوسرے کے حلیف اور مددگار نظر آتے ہیں۔ یہ محض اتفاقی بات نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک فلسفہ ہے۔ ایک طرف تو یہ نظریہ ہے کہ دنیا تمام انسانوں کے لئے پیدا کی گئی ہے اس لئے کسی شخص یا قوم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسروں کو قدرتی ذخیروں تک پہنچنے سے روکے۔ یہ استعمار کی اخلاقی اساس ہے۔ دوسری طرف انجیل کا یہ حکم ہے کہ ’’جاؤ اور اقوام عالم کو تعلیم دو۔ اس طرح تبشیر کے لئے سیاسی اور فوجی طاقت سے مدد لینا فرض ہوا۔ چنانچہ استعمار