کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 15
ڈاکٹر سید محمد یوسف
عالم اسلام کا اتحاد اور استعماری طاقتوں کے جال
مشنتری سرگرمیاں (تبشیر)اور استعمار ایک دوسرے کے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ ہیں
(بسلسلہ مسلمان ریاستوں میں اسلامی قانون سازی کے قابل غور مسائل)
( قسط ۲)
دوسرا موضوع تھا ’’الوحدۃ الاسلامیہ‘‘ یعنی اتحاد عالم اسلامی۔ اس موضوع پر بہت کم مقالے پڑھے گئے۔ ایک مقالہ دکتور عبد العزیز کامل کا قابل توجہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ دو چیزوں میں تشابہ یا تباین دیکھنا بڑی حد تک دیکھنے والے کے نقطۂ نظر کی بات ہے۔ عالم اسلامی کے قلب میں وہ قوم ہے جو سب سے پہلے اسلام کا جھنڈا لے کر نکلی اور جس کی زبان قرآن کی زبان ہے۔ مشرق میں وہ قومیں ہیں جو عقیدۂ اسلام میں برابر کی شریک ہیں اور جن کی عبادت کی زبان عربی ہے۔ شمال میں جنوبی یورپ سے اسلام سمٹ چکا ہے اور وسط ایشیا سے بھی سمٹ رہا ہے۔ یہ اسلام کے جزر کا کنارہ یا ’’خط التراجع‘‘ یعنی پسپائی کا خط ہے۔ جنوب میں یعنی افریقہ میں اسلام کے مد کا کنارہ یا ’خط التقدم‘ یعنی آگے بڑھنے اور پھیلنے کی سمت ہے۔ یورپ کی عیسائی قومیں اسلام کے اس پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ اس غرض سے وہ سیاسی دباؤ بھی ڈالتی ہیں او سب سے بڑھ کر مدرسوں اور اسپتالوں کے ذریعہ کام کرتی ہیں۔ انہیں دشمن اسلام طاقتوں نے اسلام کے قلب میں اسرائیل کا خنجر بھونک دیا ہے جس سے عالمِ اسلام دو ٹکڑے ہو گیا ہے۔ دورِ عالمِ اسلام کے مشرقی کنارے پر فلپائن میں مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کی کھلی جنگ بپا ہے۔ اس سلسلے میں خاص طور پر سلطان عبد الحمید کا ذکر آیا کہ وہ تاریخ کی بڑی مظلوم شخصیت ہے۔ انہوں نے چونکہ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کے منصوبہ کو ماننے سے انکار کر دیا تھا، اس لئے وہ سازش کا شکار ہوئے اور مسلمانوں نے بھی ان کی قدر نہیں پہچانی۔ دوسرے یہ کہ حبشہ کے ہیلی سلاسی اسلام کے پکے دشمن ہیں۔ مسلمانوں پر انہوں نے بے پناہ مظالم ڈھائے ہیں اس کے باوجود سیاسی مصلحتوں کی بنا پر مسلم ممالک میں ان کی آؤ بھگت ہوتی ہے۔ الغرض پورے عالمِ اسلام میں قیدہ کی وحدت ہے۔ کم از کم عبادت کی زبان ایک ہے۔ زندگی کے طور طریقے بھی