کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 13
آمین دراصل ایک ذہن، ایک فریاد اور ایک پس منظر ہے مگر کچھ یار دوستوں نے اس کو صرف گرمیٔ محفل کا مسئلہ بنا ڈالا ہے۔ دین برحق کے فیضان سے محرومی کے لئے اتنی ہی بات بس کرتی ہے کہ اس کے احکام کو اپنے پس منظر اور مرکز ثقل سے ہٹا کر لفظی موشگافیوں اور قانونی حیثیت کی حد تک ان کے آئینی تقاضوں کو پورا کرنے پر کوئی قناعت کیش ہو جائے! الفاظ معانی اور روحِ معانی تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ خود روح نہیں ہیں، اصلی روح وہ شے ہے جس کی طرف الفاظ اور زبان کا قافلہ گامزن ہے۔
صورت و معنے: بسم اللہ کا درد حسبِ حال جاری رہے تو حضورِ قلب کی دولت ہاتھ آجاتی ہے۔ اس لئے اسے ہر کام کے آغاز میں ضرور ملحوظ رکھنا چاہئے! برکت ہوتی ہے، احساسِ معیت کی وجہ سے ’’معصیت‘‘ سے بچ جانے کی توفیق بھی حاصل ہو جاتی ہے۔
خدا خود بھی اپنے حمد کرتا ہے اور آپ سے بھی اس کی توقع رکھتا ہے کہ اس کے گن گائیں، اس کی ذات اور حسین صفات پر نظر رہے تو واقعی بے ساختہ زبان سے واہ وا نکل ہی جاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تعریف اس کا حق ہے اس میں اس کا اور کوئی شریک نہیں!
بد کی تعریف نہیں چاہئے کیونکہ اس بے انصافی اور اسراف پر عرشِ الٰہی لرز جاتا ہے۔ تعریف ایک نذرانہ عقیدت ہے اس لئے فکر و عمل میں جذب و کیف نہ ہو، تو حمد کا واہمہ ہوتا ہے، حمد نہیں ہوتی۔
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ کا ورد بڑی اکسیر شے ہے! بکثرت جاری رکھیے اور اپنے کو اس رنگ میں رنگنے کی کوشش کیجیے، ضرورت رنگ لائے گا۔ ان شاء اللہ سوہنے کی تعریف! سوہنے ہی منہ اور زبان سے اچھی لگتی ہے۔
خدا پر کوئی شے واجب نہیں، وہ جو بھی فضل و کرم کرتا ہے، صرف اس کا کرم ہے، رحم ہے ترس ہے۔
خدا کی غلامی اور غیر کی غلامی ایک ساتھ نہیں چل سکتیں، اس لئے گھپلا سے بچیے ورنہ آپ کی عبادت متوقع رنگ نہیں لائے گی۔
سچی اور پائیدار غلامی کے لئے ضروری ہے کہ غیروں سے آسیں توڑ کر صرف اسی سے ’’آس لگائیے۔‘‘ جسے بھی آپ اپنی احتیاج میں اپنا سہارا تصور فرمائیں گے، وہ آپ کو عزیز از جان بن جائے گی اس لئے غیر سے آس لگانے میں جو مضرت ہے، اس کا احساس کیجئے۔ خدا صرف اس کا رہتا ہے جو صرف اس کا ہو رہا ہے۔ ساجھے کی صورت میں خدا خود پیچھے ہٹ جاتا ہے، پھر اسے اس کے حوالے