کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 12
دین میں ترمیمیں کرنے، خدا کو، رسول خدا اور مسلمانوں کو فریب دینے، پیغمبر کو حریف سمجھنے، وقار کا مسئلہ بنا کر تحریکِ نبوی کا مقابلہ کرنے، قومی اور وطنی سطح پر اسلام کو تولنے، سیاسی مفاد اور مادی مصالح کے معیار پر دین و ایمان کی باتیں کرنے۔ خاصانِ خدا کی تحقیر، ایمان اور عمل صالح سے پیچھا چھڑانے کے لئے جھوٹے حیلے بنانے کے باوجود اس فریب میں مبتلا رہنا کہ، خدا ہمارا اور ہم خدا کے، خدا کے غضب کو بھڑکانے والی باتیں ہیں۔ خدا کے ہاں اسی طرز عمل اور بھونڈی ذہنیت کا عنوان ’’یہودیت‘‘ ہے۔ یہودیت صرف ایک نسل اور قوم نہیں ایک منافقت، مکروہ ذہنیت، ایک فریب اور ایک شرمناک کردار کا نام بھی ہے۔ غیر المغضوب کہہ کر گویا کہ آپ نے خدا سے یہ دعا کی ہے کہ الٰہی ان مکار اور سرکش اقوام اور افراد کی راہوں سے دور رکھیو۔ دعا عموماً بے چین دل کی آواز ہوتی ہے، جو دعا اتنی گہرائی سے نکلتی ہے قلب و نگاہ پر اس کے اثرات ضرورت نمایاں ہوتے ہیں۔ یعنی اگر وہ اس پکار میں سچا ہے تو ان کے اعمال اور افکار سے بھی ضرور نفرت کرے گا۔ ورنہ وہ دعا نہیں ہو گی۔ ایک بے روح اور بے معنی آواز ہو گی۔
۲؎ وَلَا الضَّآلِّیْن (نہ گمراہوں کا)چلے تو خدا کو مگر راستہ میں بھٹک گئے، حصولِ خدا کی نیت سے، چھوٹے چھوٹے خدا نما خدا گھڑ لیے، نیک جذبہ کے ساتھ انواع و اقسام کے بدعات کی تخلیق کی، فرائض تو جوں توں کر کے نبھائے مگر خانہ ساز نفلی رسومات میں یوں کھو گئے کہ ان کو اپنا ہوش رہا نہ خدا کا، جیتے جی تو اللہ والوں کی ایک نہ سنی، لیکن جب وہ خدا کو پیارے ہو گئے تو ان کی پوجا کی، ترکِ دنیا کی ڈینگیں ماریں مگر نکلے سب سے بڑے ہوس پرست اور زر پرست، بلکہ خدا کے نام کی مالا، حصولِ زر کے لئے پھیرتے رہے۔ اسلامی زبان میں ان احمقوں کا عنوان عیسائیت ہے۔ یعنی اللہ سے آپ کی درخواست یہ بھی ہے کہ:
الٰہی! ان برخود غلط اور فریب خوردہ لوگوں کی راہوں سے بھی پرے رکھیو۔
اٰمین: علماء نے لکھا ہے کہ ختم سورت پر آمین کہنا سنت ہے۔ بخاری میں ہے کہ امام آمین کہے تو آپ بھی آمین کہیں! گناہ بخشے جاتے ہیں۔ (بخاری)ایک روایت میں ہے کہ تم میں سے جب کوئی آمین کہے اور فرشتے بھی آسمان میں آمین کہیں اور دونوں کا باہم کراس ہو جائے تو بخشش ہو جاتی ہے (بخاری باب فضل التامین)
آمین کے معنی ہیں اِسْتَجِبُ! الٰہی قبول فرما! فرشتوں کی آمین کی معیت کے ذکر میں ایک تلمیح بھی ہے۔ یعنی حضور قلب! فرشتہ صورت، فرشتہ سیرت کی دولت کا حامل ہونا چاہئے۔ آمین دراصل اس شخص کی صدا ہوتی ہے جو زبانِ حال سے کہتا ہے کہ الٰہی! اور کدھر جاؤں۔ تو ہی تو ہے، تو ہی ٹھکرا دے تو کہاں امان پاؤں! اپنے در سے نہ دھتکاریو! قبول فرمائیو!