کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 11
غَيْرِ الْمَغْضُوبِ۱؎ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ۲؎ نہ ان کا جن پر (تیرا) غضب نازل ہوا اور نہ گمراہوں کا ________________________________ کی نشاندہی کرتے ہوئے ان مذکورہ چاروں اصحابِ مدارج کے ذکر کے بعد فرمایا: ﴿وَحَسُنَ اُوْلٰٓئِکَ رَفِیْقًا﴾ (سورۂ نساء رکوع ۹) اور یہ لوگ (کیا ہی)اچھے ساتھی ہیں۔ مدار میں اتنے عظیم تفاوت کے باوجود ان کو ’اچھے ساتھی‘ کہا، کیونکہ یہ اختلاف عصری ہے یا علمی، مساعی کا ہے یا سفر حیات میں قدرتی تنوع کا، تضاد، تصادم اور عناد کا نہیں ہے۔ اختلافِ مدارج اور مساعی کے اس تنوع سے، ملی وحدت اور اس کی مرکزی حیثیت کو نقصان نہیں پہنچتا۔ ان کا دینی اخلاص، علمی بصیرت اور نیتوں کے چشمۂ صافی بھی گدلے اور مکدر نہیں ہوتے۔ خدا کے ہاں یہ مساعی جمیلہ ’سعی مشکور کہلاتی ہیں۔ ان کا یہ اختلاف، ’’اختلاف امتی رحمۃٌ‘‘ (میری امت کا اختلاف سراپا رحمت ہے)کا ظہر بھی ہوتا ہے جس میں کمزوریوں کے لئے گنجائش نکل آتی ہے اور باہم منافست اور مسابقت کیلئے راہ ہموار ہوتی ہے۔ جہاں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کے لئے یہ مہمیز کا کام دیتی ہے۔ وہاں ایک ساتھ، ایک دوسرے کو تھام تھام کر لے چلنے کی قدرتی تحریص اور ترغیب بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ مگر آہ! زوال اور انحطاط کے دور میں ’’مسابقت‘‘ کی روح تو جاتی رہی۔ تضاد اور تصادم کو ہی دین سمجھ لیا گیا اس لئے یہ تضاد بڑھتا جا رہا ہے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ جس کی وجہ سے مسلمان، حسن رفاقت کی اس توفیق سے محروم ہوتے جا رہے ہیں جو قرآن نے ’’صراط مستقیم‘‘ پر چلنے والوں کا خاصہ اور نشانی بتائی ہے۔ غور فرمائیے ہماری وہ ابتداء تھی اور اب یہ انتہا ہے۔ فلیبک من کان باکیا صراط الذین انعمت علیھم کی تخصیص فرما کر یہ بات بھی واضح کر دی کہ انعام کارکردگی کی بنیاد پر ملا کرتا ہے، وہ بھی سراپا اور اخلاص تھے، آپ کو بھی وہی حسن عمل وہی اخلاص اور حسن رفاقت کا وہی معیار پیش کرنا ہو گا۔ اس کے بغیر صراط مستقیم کا فیضان، اس پر استقامت اور اس کے مبارک نتائج کا ظہور ہو؟ مشکل اور ناممکن ہے۔ ۱؎ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ (نہ ان کی راہ جس پر تیرا غضب نازل ہوا)