کتاب: محدث شمارہ 30 - صفحہ 10
چنانچہ جواب ملا: کہ پھر یوں دعا کیا کرو! اگر طب صادق ہے تو، ہمت کیجیے! لب بام کچھ زیادہ دور نہیں رہا۔ کیونکہ جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔
خدا جوئی کے جذبہ سے، وحی الٰہی کی رہنمائی میں ’’سفر حیات‘‘ کی منزلیں طے کرنے کا نام ’’صراط مستقیم‘‘ ہے۔ خدا جوئی کا جذبہ اور نیت نہ رہے یا وحی الٰہی کی رہنمائی سے ہی کوئی الگ ہو جاے تو وہ راہ ’’صراط مستقیم‘‘ نہیں رہے گی۔
صراطِ مستقیم کا نام لے کر یہ سمجھایا ہے کہ: جو مانگا ہے، وہ کچھ پکا ہوا بیر نہیں کہ آپ کی جھولی میں ڈال دیا جائے بلکہ آپ کا مقصود و مطلوب وہ ’دھرا‘‘ ہے اور ’’راہ یہ جاتی‘‘ ہے۔ چل پڑو! راہیں ہم کشادہ کرتے چلیں گے۔
﴿اَلَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ﴾
الغرض صراط مستقیم، جہد و کوشش کے لئے ایک لطیف تلمیح ہے، یہ نہیں کہ صراط مستقیم کی دعا کرنے سے بیٹھے بٹھائے ’ولی‘ بن جاؤ گے اور ’فی سبیل اللہ‘ قربِ الٰہی حاصل ہو جائے گا۔ راہ ہمیشہ چلنے کے لئے دکھائی جاتی ہے بیٹھ رہنے کے لئے نہیں دکھائی جاتی۔
ہدایت کے معنی لطف و کرم کیساتھ سیدھی راہ دکھانے کے ہیں یعنی الٰہی! راہ صرف اتمام حجت کے لئے نہ دکھائیو! بلکہ نہایت رحمت و رافت اور شفقت کے ساتھ ’’تھام‘‘ تھام کر‘‘ لے چلنے کے لئے دکھائیو۔
۱؎ ﴿صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ﴾ (ان لوگوں کا رستہ جن پر تو نے (اپنا)فضل کیا)
جس جس راہ پر چل رہا ہے اسے ’صراط مستقیم‘ سمجھتا ہے۔ مگر یہ تو سب کی اپنی اپنی راہ ہوئی، صراط مستقیم کہاں؟ صراط مستقیم میں تعدد تنوع کا ہوتا ہے۔ تضاد کا نہیں، تضاد میں منزلیں جدا جدا ہو جاتی ہیں، تنوع میں منزل اور دل سب کے ایک رہتے ہیں، صرف رفتار اور رفتارِ کار میں فرق پڑ جاتا ہے، کوئی چیز، کوئی تیز تر، کوئی تیز ترین اور کوئی ان سے بھی ’سبک تر‘ مگر رخ سب کا ایک ہی طرف ہوتا ہے، محرک بھی سب کا ایک ہی ہوتا ہے اور منزل بھی ایک، اختلاف رائے ہوتا ہےتفرقہ نہیں ہوتا۔ بہرحال ’صراط مستقیم‘ کی تشخیص اور تعیین ، لوگوں کو اپنی اپنی صوابدید پر نہیں چھوڑی۔ بلکہ خود ہی واضح کر دی کہ، خدا کی نگاہ میں صراط مستقیم وہ ہے جس پر ’’خاصانِ خدا‘‘ انبیاء، صدیق، شہدا اور صالحین کے نقوشِ پا ثبت ہیں، یہ منعم علیہم ہیں ان میں یہ تعدد اور تفاوت، ساعی کے مدراج کا ہے، تفرق اور تضاد کا نہیں ہے۔ اس لئے دوسری جگہ ’’انعمت علیہم‘‘