کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 9
(ج) سحری کی اذان کے وقت روزہ رکھنے والے کو کھانا پینا درست ہے جب کہ فجر کی اذان سے کھانا پینا بند ہو جاتا ہے۔
(د) مسجد میں دو مؤذن [1]مقرر کرنے مسنون ہیں ؛ ایک سحری کے وقت اذان دینے والا، دوسرا فجر طلوع ہونے پر اذان دینے والا۔ یہ اس لئے ہے کہ دو مختلف آوازوں سے اذانِ سحری اور فجر کا امتیاز ہو جائے۔
۲۔ عن عبد اللّٰہ بن عمر قال سمعت رسول اللّٰہ ( صلی اللّٰه علیہ وسلم ) یقول: ان بلا لا یؤذن بلیل فکلوا واشربوا حتی تسمعوا اذان ابن ام مکتوم۔ [2]
ابن عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ تورات کے وقت اذان دیتا ہے اس لئے تم کھاتے پیتے رہو حتیٰ کہ ابن ام مکتوم کی اذان سن لو۔
۳۔ عن ابن مسعود عن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: ان بلا لا یؤذن بلیل لیوقظ نائمکم ولیرجع قائمکم۔ [3]
ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ رات کو اذان کہتا ہے تاکہ سونے والے کو بیدار کرے اور قیام کرنے والا واپس لوٹ جائے۔
اس حدیث میں اذانِ سحری کا مقصد بیان کیا ہے۔
۴۔ عن عائشۃ قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم : اذا اذن بلال فکلوا
[1] عن ابن عمر : قال کان لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن ؟ بلال و ابن ام مکتوم ۔ مسلم 1: 165
[2] مسلم 1: 349
[3] امام محمد بن الحسن الشیبانی ( مؤطا امام محمد مترجم : 138) اور حافظ ابن حزم المحلی 2: 117نے وضاحت کی ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ سحری کے وقت اذان دیتے تھے