کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 7
کیا سحری کی اذان مسنون ہے؟
کیا اذان کی بجائے لاؤڈ سپیکر پر اعلان درست ہے؟
ہفت روزہ ’’اہلحدیث‘‘ لاہور مورخہ ۴ دسمبر ۱۹۷۰ (۱/۴۷:۵) میں چند مسائل بطور سوال جواب درج ہیں ۔ مفتی مولانا ابو البرکات احمد گوجرانوالہ ہیں اور جوابات کی تصدیق حضرت مولانا حافظ محمد صاحب گوندلوی نے کی ہے۔ اس وقت میں ایک جواب پر تعاقب کر رہا ہوں ، جو ہدیۂ ناظرین ہے۔ (حصاری)
مسئلہ: (الف) ’’رمضان المبارک میں جو سحری کی اذان کہی جاتی ہے، اس کا ثبوت کیا ہے؟
(ب) اگر اذان کی بجائے لاؤڈ سپیکر پر اعلان کر کے لوگوں کو بیدار کیا جائے تو کیا یہ جائز ہوگا؟ کتاب و سنت کی روشنی میں تحریر کریں ۔‘‘
مفتی صاحب کا جواب:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مؤذن تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور ابن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ ۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کے متعلق علما کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا وہ سحری کے لئےتھی یا فجر کے لئے؟ صحیح بات یہی ہے کہ وہ فجر کے لئے تھی، کیوں کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان سال بھر چلتی تھی، لہٰذا خاص سحری کے نام پر اذان کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ لوگوں کو سپیکر کے ذریعہ بیدار کرنے میں