کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 5
ٹھنڈے دِل و دماغ سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت قوم میں علاقائی اور طبقاتی سفلی جذبات اپنے عروج پر پہنچ چکے ہیں ۔ انتخابات میں عظیم اکثریت سے کامیاب ہونے والے لیڈر ملک کو تباہی کے کنارے پر لے آئے ہیں ۔ صدر یحییٰ خاں نے اگرچہ لیگل فریم ورک آرڈر میں اسلام اور نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لئے واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا تھا اور یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ ملک کی سالمیت کے منافی آئین منظور نہیں کیا جائے گا لیکن انتخابات میں کامیابی کے بعد اب تک جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے اور جس قسم کے نکات پر اصرار کیا جا رہا ہے وہ واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ لوگ ملک و ملت کے وسیع تر مفاد کو نظر انداز کر کے من مانی کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، حالت یہ ہے کہ قوم اسمبلی کے اجلاس کے صرف چند روزہ التوا کے اعلان سے حالات اتنے مخدوش ہو رہے ہیں کہ پاکستان کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
یہ صورتِ حال جہاں پاکستانی عوام کے لئے پریشان کن ہے وہاں پاکستان کے دشمنوں کے لئے مژدۂ جانفزا ہے وہ حالات کو اور بگاڑنے کے لئے اپنی اپنی تدابیر میں مصروف ہیں ۔ خصوصاً ہندوستان اس سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے اور اس نے پاکستان کو اس اندرونی خلفشار میں مبتلا دیکھ کر مختلف بہانوں سے پاکستانی سرحدوں پر اپنی فوجیں جمع کر دی ہیں ، ہماری فوجیں جن پر ہم ہر قسم کے حالات میں اعتماد کر سکتے ہیں اور وہ خدا کے فضل سے دشمنوں سے ہر محاذ پر نپٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اس وقت ان پر دوہری ذمہ داریاں آن پڑی ہیں کہ جہاں وہ پاکستان کے بیرونی دشمنوں کا دفاع کریں وہاں اندرونی انتشار پسندوں کے مذموم ارادے خاک میں ملا دیں ۔
ان حالات میں پاکستان کے ہر بہی خواہ کا فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس