کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 4
آئی تھی کیسا اسلامی نمونہ پیش کرتی ہے اور کیسے ثابت کرتی ہے کہ دورِ حاضر کے لئے بہترین ضابطۂ حایت اور انسانی مشکلات کا واحد حل اسلام ہے؟ دیکھنے والے کی نظر صاحب فکر کے کردار پر ہوا کرتی ہے جس سے وہ فکر و نظر کی صحت کا اندازہ لگایا کرتا ہے اور نتیجہ کار ہی اس کی صحت و عظمت تسلیم کرواتا ہے لیکن بد قسمتی کہئے یا حالات کی ستم ظریفی کہ ہم نے اسلام کا نام لے کر اسلام کے لئے کچھ نہیں کیا۔ ۲۳ سال میں ہم نے کیا پایا ہے؟ یہی کہ آج تک اس کے بنیادی نظریہ اور سالمیت کے خلاف کسی کو آواز اُٹھانے کی جرأت نہ ہو سکی تھی لیکن اب نہ صرف یہ کہ اس کے بنیادی نظریہ کے خلاف ہر کس و ناکس کو زبان کھولنے کی اجازت مل گئی ہے بلکہ اس کی سالمیت اور استحکام کے خلاف بھی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں ۔
قوم فرسودہ نظام تعلیم، اندھا دھند مغربی تقلید، فحاشی اور بے حیائی کی بدولت خدا سے غافل ہو کر جس طرح عیش کی دلادہ ہو رہی تھی، اقتدار پسند لیڈروں نے اصلاحِ حال کی طرف توجہ دینے کی بجائے ان کی ذہنی کج روی اور سفلی جذبات سے پورا فائدہ اُٹھایا اور اصلاحی اور فکر انگیز تحریکوں کے علی الرغم ہوسِ اقتدار میں ان کو شدید جذباتی بنا دیا۔ اس طرح ان کے لئے اقتدار کی راہیں تو کھل گئیں لیکن قوم ان جذبات میں اپنا سب کچھ کھو بیٹھی اور حسد و بغض کی آگ اور مادہ پرستی کے جذبات میں اپنی متاع حیات اسلام اور استحکام پاکستان سے غافل ہو گئی۔ جبکہ ان ہوس مندوں نے اسے قوم کی عظیم بیداری کا نام دیا۔
چونکہ حالیہ انتخابات میں طبقاتی اور علاقائی منافرت کے جذبات سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھایا گیا تھا اس لئے انتخابات کے بعد آئین سازی کے لئے جس اتحاد و یگانگت اور رواداری کی ضرورت تھی وہ مفقود ہے اور انتخاب میں کامیاب ہونے والی دو بڑی پارٹیوں کے لیڈر آئینی گتھیوں کو سلجھانے کیلئے بھی جذبات کی اسی ۔۔۔ آگ کو ابھی تک بھڑکاتے چلے جاتے ہیں حالانکہ اب آئین سازی کیلئے