کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 39
رسول گواہی دیتا ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن بارگاہِ خداوندی میں حاضر رہو گے۔‘‘ اس کے بعد نمازیانِ دینِ متین کو حکم ہوا کہ:۔ ’’کشتانِ راہِ خدا کی آخری زیارت کر کے سلام بھیجیں ۔‘‘ اور فرمایا کہ:۔ ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ روزِ قیامت تک جو کوئی ان پر سلام بھیجے گا وہ اس کا جواب دیں گے۔‘‘ (اللّٰهم صلّ وسلِّم علیھم) یہ وہ زمانہ تھا کہ مسلمان نہایت عسرت و تنگ دستی کی زندگی گزار رہا تھا اور غربت و افلاس کے باعث شہیدانِ ملت کے لئے کفن تک میسر نہ تھا۔ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کی لاش پر صرف ایک چادر تھی، جس سے سر چھپایا جاتا تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور پاؤں چھپائے جاتے تو سر کھل جاتا تھا۔ بالآخر چادر سے چہرہ چھپایا گیا کہ حورانِ بہشتی کا شوقِ دیدار فزوں سے فزوں تر ہو جائے اور ان کے بھائی حضرت ابو الدوام رضی اللہ عنہ نے تین اور حضرات کی مدد سے سپرِ خاک کیا۔ ؎ بنا کر وند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را اللہ اکبر! یہ وہی مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر تھے جن کو ابھی ہم مکے میں قبولِ اسلام سے پہلے بھی دیکھ چکے اور زبانِ صداقت و لسانِ وحی سے ان کے حسن و جمال اور ناز و نعم پروری کا حال سن چکے ہیں ۔ ان کو مادی اسباب کی کیا پروا تھی؟ دنیاوی آسائش و راحت کی کون سی چیز انہیں حاصل نہیں تھی؟ وہ کونسا انسانی تکلف تھا جس کی ان سے آشنائی نہ ہو لیکن نیکو کاری کی رغبت اور خدا و رسول کی محبت نے انہیں اس مقام پر پہنچا دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ دیا اور اہلِ دنیا کی حالت پر رحم آگیا۔ ایک روز کا واقعہ ہے کہ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر دربار نبوت میں حاضر ہوئے۔ حالت یہ تھی کہ جسم پر ستر پوشی کے لئے صرف کھال کا ایک ٹکڑا تھا۔ جس میں جا بجا پیوند لگے ہوئے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دیکھا تو عبرت سے گردنیں جھکا لیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:۔ ’’الحمد للہ! اب دنیا کی تمام اہلِ دنیا کی حالت بدل جانا چاہئے۔ یہ وہ نوجوان ہے جس سے زیادہ مکے میں کوئی ناز پروردہ نہ تھا۔ لیکن نیکو کاری کی رغبت اور خداو رسول کی محبت نے اس کو تمام چیزوں سے بے نیاز کر دیا ہے۔‘‘