کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 38
غزوۂ احد پیش آیا تو اس میں بھی علمبر داری کا تمغائے شرف ان ہی کو ملا۔ شہادت: اس جنگ میں ایک اتفاقی غلطی نے جب فتح و شکست کا پانسہ پلٹ دیا اور فاتح مسلمان ناگہاں طور سے مغلوب ہو کر منتشر ہو گئے تو یہ علمبردار اسلام اس وقت بھی یکہ و تنہازغۂ اعدئ میں ثابت قدم اور ہمت آزما رہا کیونکہ پرچم توحید کو پیچھے کی طرف جنبش دینا اس فدائی ملت کے لئے سخت عار تھا۔ غرض اسی حالت میں مشرکین کے ایک شہسوار ابن قمیۂ نے بڑ کر تلوار کا وار کیا جس سے داہنا ہاتھ شہید ہو گیالیکن بائیں ہاتھ نے فوراً علم کو پکڑ لیا۔ اس وقت ان کی زبان پر یہ آیت جاری تھی۔ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ۔۔۔۔۔۔۔ (آل عمران) ابن قمیۂ نے دوسرا وار کیا تو بایاں ہاتھ بھی قلم تھا لیکن اس مرتبہ دونوں بازوؤں نے حلقہ کر کے علم کو سینے سے چمٹا لیا۔ دشمن نے جھنجھلا کر تلوار پھینک دی اور اس زور سے تاک کر نیزہ مارا کہ اس کی انی ٹوٹ کر سپنے میں رہ گئی اور اسلام کا سچا جانباز اسی آیت کا اعادہ کرتے ہوئے فرش خاک پر دائمی راحت اور ابدی سکون کی نیند سو رہا تھا۔ یہ صورت دیکھ کر ان کے بھائی ابو الدوم رضی اللہ عنہ بن عمیر آگے بڑھے اور لوائے توید کو سنبھالا دے کر پہلے کی طرح بلند رکھا اور آخر وقت تک شجاعانہ مدافعت کرتے رہے۔ تجہیز و تکفین: جنگ ختم ہو گئی اور لشکر کفار اپنی موہوم فتح کے غرور باطل میں بدمست ہو کر واپس چلا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کی لاش کے قریب تشریف لائے۔ آپ نے کھڑے ہوئے پہلے یہ آیت تلاوت فرمائی:۔ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ (اہل ایمان میں سے چند آدمی ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے جو عہد کیا تھا اس کو سچا کر دکھایا) پھر لاش سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ:۔ ’’میں نے تم کو مکہ میں دیکھا تھا جہاں تمہارے جیسا حسین و خوش پوشاک کوئی نہ تھا۔ لیکن آج دیکھتا ہوں کہ تمہار بال الجھے ہوئے ہیں اور جسم پر صرف ایک چادر ہے۔ بے شک خدا کا