کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 37
اہلِ یثرب کو فدائی اسلام بنا دیا اور تحریکِ اسلامی کو ایک نئے موڑ پر لے آئے۔ چنانچہ عقبہ ثانیہ کی بیعت میں تہتر اکابر و اعیانِ مدینہ کی پرعظمت جماعت اپنی قوم کی طرف سے تجدیدِ بیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں مدعو کرنے کے لئے روانہ ہوئی۔ ان کے معلمِ دین حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے۔ انہوں نے مکہ پہنچتے ہی سب سے پہلے آستانۂ نبوت پر حاضری دی اور اپنی حیرت انگیز کامیابی کی مفصل داستان غرض کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت توہ اور دل چسپی کے ساتھ تمام واقعات سنے اور ان کی محنت، جاں فشانی سے حد درجہ محظوظ ہوئے۔ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ ایک عرصہ کے بعد مکہ تشریف لائے تھے لیکن ابھی تک ماں سے ان کی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ماں نے بیٹے کے آنے کی خبر سنی تو کہلا بھیجا:۔ ’’اے نافرمان فرزند! کیا تو ایسے شہر میں آئے گا جس میں مَیں موجود ہوں اور تو پہلے مجھ سے ملنے نہ آئے۔‘‘ انہوں نے نہایت بے نیازی سے جواب دیا کہ:۔ ’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی سے ملنے نہیں جاؤں گا۔‘‘ اس کے بعد حضرت مصعب رضی اللہ عنہ جب حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شرف ملازمت حاصل کر چکے تو اپنی ماں کے پاس آئے اور طویل گفتگو کے بعد واپس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں چلے گئے۔ یہ ذی الحجہ کا مہینہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے تین مہینے (ذی الحجہ، محرم، صفر) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی خدمت میں بسر کیے اور پہلی ربیع الاوّل کو آپ سے بارہ دن قبل مستقل طور پر ہجرت کر کے مدینہ کی راہ لی۔ ۲ ؁ھ سے حق و باطل، کفر و اسلام اور نور و ظلمت میں خونریز معرکوں کا سلسلہ شروع ہوا اور کفار کے فساد و بدامنی، طمع و ہوس، بغض و عدات اور تعصب و تنگ نظری کی آگ کو فرد کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ: اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْ ا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (الحج) تو حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر بھی عرصۂ دغا میں نکلے اور اس شان سے نکلے کہ غزوۂ بدر میں مہاجرین کی جماعت کا سب سے بڑا پرچم ان کے ہات میں تھا۔ انہوں نے میدانِ فصاحت کی طرح یہاں بھی اپنے نمایاں جوہر کا اظہار کیا۔ چنانچہ اس کے بعد