کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 36
پیدا ہوا۔ لہٰذا یہ لوگ مکہ روانہ ہو گئے۔ مگر مکے کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی۔ بہرحال یہ سب کسی نہ کسی کی امان میں داخل ہو گئے اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کے علاوہ تمام حضرات مکے ہی میں ٹھہر گئے۔ ہجرت کے مصائب نے حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر کی ظاہری حالت میں نمایاں فرق پیدا کر دیا تھا۔ اب نہ وہ رنگ باقی رہا تھا اور نہ وہ روپ چہرے پر دکھائی دیتا تھا۔ یہاں تک کہ خود ان کی ماں کو اپنے نورِ نظر کی پریشاں حالی پر رحم آگیا اور وہ مظالم کے اعادہ سے باز آگئی۔ اس اثنا میں آفتابِ اسلام کی شعاعیں یثرب کی وادی میں پہنچ چکی تھیں اور مدینہ منورہ کا ایک معزز طبقہ مشرف باسلام ہو گیا تھا۔ مدینے کے حق پرستوں نے دربارِ نبوت میں درخواست بھیجی کہ ہماری تعلیم و تلقین پر کسی کو مامور فرمایا جائے۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخواست کو شرفِ قبولیت بخشا۔ آپ کی نگاہ جوہر شناس نے اس خدمت کے لئے مصعب رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا اور چند زریں نصائح کے بعد انہیں مدینہ منورہ کی طرف بھیج دیا۔ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر نے اس منصبِ جلیلہ پر فائز ہو کر تعلیمِ قرآن اور اشاعتِ اسلام کے سلسلے میں جو بیش بہا خدمت انجام دیں اور جس حسن و خوبی کے ساتھ عقائد و محاسنِ اسلام بیان کر کے مدینے کی فضا کو اسلام کے لئے ہموار کیا وہ اسلامی تاریخ کا ایک پورا باب ہے اور اسلامی دعوت کی آئندہ مرکزی عمارت کے سنگل میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی شبانہ روز کوششوں اور انتھک محنت سے جب مدینہ منورہ میں فداکارانِ اسلام کی ایک معتد بہ جماعت پیدا ہو گئی تو انہوں نے دربارِ نبوت سے اجازت حاصل کر کے حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن خثیمہ کے مکان میں جماعت کے ساتھ نمازِ جمعہ کی بنا ڈالی۔ پہلے کھڑے ہو کر ایک نہایت مؤثر خطہ دیا۔ پھر خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھائی اور نماز کے بعد حاضرین کی ضیافت کے لئے ایک بکری ذبح کی گئی۔ اس طرح وہ شعار اسلامی جو روزانہ عبادتِ الٰہی کے علاوہ ہفتہ میں ایک دفعہ برادرانِ اسلام کو ایک جگہ جمع ہو کر باہم بغل گیر ہونے کا موقع دیتا ہے، خاص حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر کی تحریک سے قائم کیا گیا تھا اور سب سے پہلے وہی اس کے امام تھے۔ عقبہ کی پہلی بیعت میں صرف بارہ انصار شریک تھے لیکن حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے ایک ہی سال میں تمام