کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 35
کے حصول میں لگے گئے۔ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر ’’بہترین امت‘‘ میں داخل تو ہو گئے لیکن کفر و شرک کی بے پناہ یلغار کے باعث ایک عرصے تک انہیں اپنے اسلام کو پوشیدہ رکھنا پڑا اور وہ چھپ چھپ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتے اور اسلامی تعلیمات حاصل کرتے رہے۔ ایک روز کا واقعہ ہے کہ عثمان بن طلحہ نے جو اس وقت تک مشرف باسلام نہیں ہوئے تھے، انہیں کہیں نماز پڑھتے دیکھ لیا اور جا کر ان کی ماں اور ان کے اہلِ خاندان کو خبر کر دی۔ بس پھر کیا تھا ماں اور خاندان والوں کی ساری محبت نفرت میں بدل گئی، سارے ناز و نعم ختم ہو گئے اور ’’مجرم توحید‘‘ کو قیدِ تنہائی کے مصائب و آلام کے حوالے کر دیا گیا۔ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ ایک عرصے تک تمام اذیتیں برداشت کرتے رہے، نرم و نازک لباس میں ان کے لئے کوئی جاذبیت نہ رہی۔ انواع و اقسام کے کھانے ان کی نظروں میں ہیچ ہو گئے، نشاط افزا عطریات کا شوق ختم ہو گیا اور دنیاوی عیش و تنعم اور مادی اسباب و وسائل سے یکسر بے نیاز ہو گئے۔ اب ان کے سامنے صرف ایک ہی مقصد تھا۔ یہ وہ مقصد تھا جسے جلوۂ توحید نے ان کے دل میں روشن کیا اور تمام فانی ساز و سامان سے بے پرواکر دیا تھا۔ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ اب زندانِ تنہائی سے تنگ آگئے، اشاعت اسلام کا جذبہ ان کے دل میں ابھرتا اور وہ اپنی اس تلخ زندگی پر سخت متاسف ہوتے ادھر کچھ دوسرے دلدادگانِ جلوۂ توید بھی کفار کی سختیاں سہتے سہتے عاجز آگئے تھے اور کسی ایسی جائے پناہ کی تلاش میں تھے جہاں انہیں کچھ اطمینان و سکون میسر ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مشورہ دیا کہ تم لوگ فی الحال حبشہ کو ہجرت کر جاؤ، وہاں کا بادشاہ رحمدل اور منصف مزاج ہے وہ تم کو آرام سے رکھے گا۔ یہ حکم پاتے ہی مصیبت زدہ مسلمانوں کا ایک کثیر التعداد قافلہ ہجرت کے لئے آمادہ ہو گیا جس کے رئیس حضرت عثمان بن منطعون تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان اور ان کی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس قافلے میں تھے۔ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر نے بھی ان متلاشیانِ امن و سکون کے ساتھ سرزمینِ حبشہ کی راہ لی اور آاپنے آپ کو غریب الوطنی کے مصائب و آلام کے حوالے کر دیا۔ ابھی یہ لوگ کچھ ہی دن حبش میں رہے تھے کہ ان کو اہل مکہ کے اسلام کی خبر ملی اور فطرۃً وطن لوٹنے کا شوق