کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 30
اِس بابرکت گروہ کے اکابرین میں شمار ہوتے ہیں ۔ شیخ محمد بن طاہر پٹنی رحمہ اللہ (م ۹۷۶ھ) بڑے بالغ نظر عالم اور فنونِ حدیث میں یگانۂ روزگار تھے۔ درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے سلسلے میں بیش بہا خدمات انجام دیں ۔ غریب الحدیث میں ’’مجمع البحار‘‘، اسمائ الرجال میں ’’المغنی‘‘ اور موضوعات میں ’’تذکرہ‘‘ تصنیف فرمایا۔ ان کی اَن تھک کوششوں سے علمِ حدیث کا پھر رواج ہوا اور علما نے اس اہم مصدرِ شریعت کی جانب پھر سے توجہ فرمائی۔ شیخ علی متقی گجراتی رحمہ اللہ (م ۹۷۵ھ) نے بھی قابلِ قدر اور لائقِ تحسین خدمات سر انجام دیں ، لیکن ملک کے سیاسی حالات کے پیشِ نظر وہ حجاز میں جا بیٹھے اور وہیں خدمتِ حدیث میں مصروف رہے۔ آپ کی یادگار تالیف کنز العمال ہے۔ اسی طرح شیخ عبد الاول بن علی بن علاؤ الدین الحسینی رحمہ اللہ (م ۹۶۸؁ھ) نے اپنی دادا شیخ علاؤ الدین رحمہ اللہ ایسے فضیلت مآب محدث سے علمِ حدیث پڑھا اور پھر درس و تدریس کے ذریعے اس بابرکت علم کو رواج دیا۔ فیض الباری شرح صحیح البخاری اپنی یادگار چھوڑی۔ ان کے نامور تلامذہ میں شیخ طاہر بن یوسف سندی (م ۱۰۰۵؁ھ) خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں جنہوں نے برہان پور میں مدت العمر درسِ حدیث دیا اور علما کی کثیر تعداد نے ان سے استفادہ کیا۔ پھر شیخ عبد الحق بن سیف الدین البخاری دہلوی رحمہ اللہ (م ۱۰۵۲؁ھ) کا دور شروع ہوا۔ دہلی میں مدتُ العمر درسِ حدیث دیا۔ تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف کے ذریعے نشر و اشاعتِ حدیث کے سلسلے میں بیش بہا خدمات انجام دیں ۔ شیخ نور الحق رحمہ اللہ (بن شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ ) متوفی ۱۰۷۲؁ھ، شیخ الاسلام شارحِ بخاری اور شیخ سلام اللہ صاحب رحمہ اللہ المحلی والکمالین نے بھی خدمات انجام دیں ۔ شیخ احمد ن عبد الاحد سر ہندی رحمہ اللہ (مجدد الف ثانی) امام طریقہ مجددیہ، اور ان کے صاحبزادے محمد سعید شارحِ مشکوٰۃ کی خدمات بھی بڑی گراں قدر ہیں ، بالخصوص ان کی اولاد میں فرخ شاہ رحمہ اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ:۔