کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 28
کیا۔ اس مقدس گروہ کے نامور بزرگوں میں :۔ ٭ موسیٰ بن یعقوب، الثفقی رحمہ اللہ ٭ یزید بن ابی کبشہ رحمہ اللہ ٭ المفضل بن المہلّب رحمہ اللہ ٭ ابو موسیٰ اسرائیل بن موسیٰ البصری رحمہ اللہ ٭ عمرو بن مسلم الباہلی رحمہ اللہ ٭ منصور بن حاتم نحوی رحمہ اللہ ٭ ابراہیم بن محمد دیبلی رحمہ اللہ ٭ احمد بن عبد اللہ دیبلی رحمہ اللہ ٭ ابو العباس احمد بن محمد المنصوری رحمہ اللہ ٭ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ آخر الذکر بزرگ منصورہ کے قاضی، مقتدر عالم دیں اور صاحبِ تالیف و تصنیف تھے اور بقول بعض تمسک بالحدیث اور عمل بالسنت کے باعث لوگ انہیں امام داؤد بن علی ظاہری کے مسلکِ فکر کے پیروکار تصور کرتے تھے۔ ٭ امتدادِ زمانہ سے حدیث کے چرچے کم ہو گئے۔ کتاب و سنت کے متبحر علمائ شاذ شاذ نظر آنے لگے۔ حدیث وسنت کے طلبہ کی تعداد ہت قلیل ہو گئی۔ سلاطینِ غزنویہ اور شاہانِ غوریہ کے عہدِ کومت میں دیگر علوم نے زیادہ رواج پا لیا۔ طلبِ حدیث کا ذوق کم سے کم تر ہوتا چلا گیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ لے دے کر صفانی کی مشارق الانوار علمائے حدیث کا سرمایۂ علم ٹھہری اور اگر کسی نے بڑی ہمت کی اور مصابی السنہ اور مشکوٰۃ المصایح تک رسائی حاصل کر لی تو اس نے سمجھا کہ محدث کا درجہ مل گیا ہے۔ اس اندازِ فکر اور طریقِ عمل سے علم حدیث سے وابستگی اور دل بستگی کم ہو گئی۔ کتبِ صحاح ایسے اہم مصادرِ حدیث سے واقفیت نہ رہی۔ پھر یہ دور بھی آیا کہ مشکوٰۃ پڑھنے والے بھی بطورِ تبرک پڑھتے، فہم و عمل کا جذبہ سرد پڑ گیا۔ ٭ جب علمائے کرام کی توجہ کتاب و سنت سے ہٹ کر دوسرے علوم کی طرف ہو گئی۔ تو کتبِ حدیث کی جگہ کتبِ فقہ نے لے لی۔ اور وہ بھی علمی اور اجتہادی انداز میں نہیں بلکہ تقلیدی اور تدریسی انداز میں نتیجہ یہ نکلا کہ اس برصغیر میں قرآن و حدیث کے بجائے کتبِ فتاویٰ پر اعتماد و انحصار ہونے لگا۔ ٭ بایں ہمہ سر زمینِ پنجاب میں شیخ بہائ الدین زکریا ملتانی رحمہ اللہ (م ۶۶۶ھ) اور ان ک جانشیں شیخ جمال الدین محدث رحمہ اللہ اور شیخ رکن الدین رحمہ اللہ بن شیخ صدر الدین رحمہ اللہ ملتان میں اور سید جلال الدین بخاری رحمہ اللہ مخدوم جہانیاں