کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 27
٭ یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کے چہرے کو رونق و تابندگی عطا فرمائے جس نے میری حدیث سنی اور یاد رکھی، پھر دوسروں تک پہنچائی۔ ٭ یہاں بھی سماعت و روایتِ حدیث کے سلسلے کو قائم کرنے اور جاری رکھنے والوں کے لئے دعا فرمائی ہے۔ اس ضمن میں حزم و احتیاط کی تلقین فرماتے ہوئے مفتری اور کذاب کے عواقب سے خبردار کر دیا اور بتا دیا کہ روایت حدیث میں کذب بیانی اور افترا کی سزا دوزخ ہے۔ ٭ اسی پاک مقصد کے پیش نظر کئی صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو قلمبند کر کے محفوظ کر لیا کرتے تھے۔ اِسی نظریے کو سامنے رکھتے ہوئے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بعد تابعین، تبع تابعین اور پھر بعد میں آنے والے ہر دور میں اہلِ علم و فضل نے حادیث کو اپنے اپنے حسنِ انتخاب اور ذوقِ نظر کو ملحوظ رکھ کر کتبِ احادیث کی تالیف و تدوین کی۔ ٭ جب کسی علم و فن کی نشر و اشاعت کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ غیب سے اس کے سامان بھی مہیا کر دیتا ہے۔ مشیتِ الٰہی نے جب اس سرزمین کو خدمتِ حدیث اور اشاعتِ سنت کے لئے پسند فرمایا تو ابتدا سے اس کے لئے مناسب و موزوں انتظام بھی فرما دیا۔ عہدِ خلافتِ راشدہ میں مسلمانوں نے اپنے قدم اس برصغیر کی سرزمین میں رکھے۔ حضرتِ عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں مسلمانوں کا ایک فوجی دستہ بمبئی کے ساحلی علاقے تھانہ میں پہنچا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک وفد سندھ کے کوائف و حالات معلوم کرنے کے لئے یہاں آیا۔ بعد میں مسلمان برابر اس برصغیر میں آتے جاتے رہے۔ رجال کے تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر و بیشتر قائدینِ لشکر، سپہ سالار اور ان کے کئی فوجی سپاہی رواہِ حدیث میں شمار ہوئے ہیں ۔ جب خلیفہ ولید بن عبد الملک رحمہ اللہ کے عہد میں محمد بن قاسم رحمہ اللہ نے بلاد سندھ کی فتح کو ایک حد تک پایۂ تکمیل کو پہنچا دیا تو ان کے ہمراہ بہت سے اتباع التابعین اس برصغیر بالخصوص سندھ میں داخل ہوئے۔ ٭ بعد میں بہت سے اور حضرات بھی بض سیاسی اور دینی وجوہ کی بنائ پر اس ملک میں آ بسے اور اپنے ساتھ علمِ حدیث بھی سرزمین ِ سندھ میں لائے۔ ٭ ان میں سے بعض نے تو حفظ و روایت میں شہرت پائی اور بعض نے تصنیف و تالیف میں نام پیدا