کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 25
وغیرہ الفاظ آئے ہیں وہ سب شغار کی مذکورہ بالا منہی عنہ صورت کا بیان ہے اگرچہ وہ احادیث ضعیف ہیں ۔ [1] تفریق: مندرجہ بالا دلائل سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ نکاح شغار باطل ہے اور اگر ایسا نکاح ہو جائے تو منعقد نہیں ہو گا اور تفریق (جدائی) کرائی جائے گی۔ جیسا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کرائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان لا شغار فی الاسلام کا یہی مطلب ہے۔ نوٹ: نکاح شغار، نکاح مبادلہ اور نکاح وٹہ سٹہ ایک ہی ہیں اور نکاح میں ایسی شروط نکاح کو باطل کر دیتی ہیں ۔ خواہ وہ نکاح کے وقت ہوں یا اس سے قبل کیونکہ نکاح سے قبل کی ہوئی شرط بھی نیت میں ہوتی ہے۔ ھذا ما عندی واللّٰہ اعلم بالصواب
[1] شغار کی تفسیر میں بعض رواہِ حدیث اور ائمہ لغت لا صداق بینہما وغیرہ کی جو قید ذکر کرتے ہیں۔ یہ قید اتفاقی احترازی نہیں۔ کیونکہ عام طور پر نکاح شغار بغیر مہر کے ہی ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نکاح میں اصل تبادلہ عورت ہے۔ مہر کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔