کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 24
قلت لنافع: ما الشغار؟ قال ینکح ابنۃ الرجل وینکحہ ابنتہ بغیر صداق، وینکح اخت الرجل وینکحہ اختہ بغیر صداق اخرجہ البخاری (فی کتاب الحیل وفی باب الشغار) ومسلم واحمد وابو داؤد والترمذی والنسائی وابن ماجہ ولفظ ابی داؤد زاد سددنی حدیثہ قلت لنافع وما الشغار؟ (الحدیث) عبید اللہ روایت کرتے ہیں کہ نافع نے مجھے عبد اللہ بن عمر سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا ہے۔ میں نے نافع سے کہا، شغار کیا ہے؟ کہا، ایک شخص دوسرے کی بیٹی س نکاح کرتا ہے اور اس بغیر مہر کے اپنی بیٹی کا نکاح دیتا ہے اور کسی کی بہن سے نکاح کرتا ہے اور اسے اپنی بہن کا نکاح بغیر مہر کے دیتا ہے۔ اسے جماعت نے روایت کیا اور ابو داؤد کے لفظ یہ ہی۔ زاد سددنی حدیثہ قلت لنافع: ما الشغار؟ یعنی مسدد نے (شغار کی ممانعت کے ذکر کے بعد اور شغار کی تعریف سے قبل) زیادہ کیا ہے۔ میں نے نافع سےپوچھا: شغار کیا ہے؟‘‘ یعنی بعد والی شغار کی تعریف نافع نے کی۔ یہ تعریف جو نافع نے کی ہے۔۔۔ شغار کی وہ صورت ہے جس میں مہر مقرر نہیں ہوتا۔ یہ تفسیر شغار اگرچہ نافع کی ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شغار مطلق (بہ تقرر مہر و بلا تقرر مہر) سے منع کرنا حدیث ابی ہریرہ میں گزر چکا ہے۔ اس لئے نافع کی بیان کردہ صورت بھی شغار ممنوعہ کی ایک شکل ہے۔ طبرانی[1] وغیرہ کتب حدیث میں نکاح شغار کے یان میں جن احادیث میں ’’لا صداق بینہما‘‘ یا ’’بغیر صداق‘‘
[1] طبرانی میں ابی بن کعب سے جو مرفوع روایت ہے اس میں یوسف بن خالد السمی ہے جو ضعیف ہے اور سند بھی منقطع ہے (مجمع الزوائد ۱۹/۲۶۶/۴) ھافظ ابن حجر تہذیب التہذیب (۴۱۲،۴۱۱/۱۱) میں لکھتے ہیں۔ قال معاویہ بن صال عن ابن معین: ضعیف، وقال عبد اللہ بن احمد عن ابن معین کذاب خبیث عدو اللّٰہ تعالیٰ، وقال الدوری عن ان معین: کذاب زندیق لا یکتب حدیثہ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری اور تلخیص الجیر میں اس تفسیر کے متعلق جو فرمایا ہے، یستأنس بہٖ فی ہذا المقام وہ اس وقت درست تھا جب نافع کی تفسیر مرفوع ہوتی اور اس حدیث کی تائید کرتی ۱۲ منہ