کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 23
خلاف ہے جس کی تفصیل یوں ہے کہ: ’’جعل دو قسم کا ہوتا ہے: بسیط + مرکب۔ جعل مرکب مبتدا خبر کے افعال سے ہے اور فعل تحویل کہلاتا ہے۔ اگر بغیر قرینہ کے اس کا مفعول حذف کیا جائے تو تحویل کے معنی واضح نہ ہوں گے۔ نیز پہلا مفعول معنی مبتدا ہے جس کا تعین و تخصص ہونا چاہئے اور حذف میں ابہام پایا جاتا ہے۔ حذف سے جعل (مرکب) کا جعل (بسیط) سے التباس بھی لازم آئے گا جو مانع حذف ہے۔ نیز ضرورت کے بغیر حذف فصاحت و بلاغت کے خلاف ہے۔ خصوصاً جب کہ التباس ہو۔ اس لئے یہاں کوئی مفعول (ضمیر) محذوف نہیں بلکہ جعل (بسیط) ہے اور وقد کانا جعلا صداقا کے معنی یہ ہیں کہ ان دونوں نے مہر رکھا تھا۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار مع تقرر مہر سے منع فرمایا ہے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جو تفریق کا حکم دیا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق تھا۔ ’’نہیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کے الفاظ اس کے مرفوع ہونے کی دلیل ہیں ۔ باقی رہا یہ وہم کہ شاید حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ اپنی طرف سے کیا ہے، قابلِ التفات نہیں کیوں کہ جس طرح صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ نقل کرے تو حدیث مرفوع ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ مفہوم بیان کر تو بھی مرفوع ہو گی۔ یہاں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنا مفہوم بیان کیا ہے۔ وضاحت: حدیث کے الفاظ ’’ہذا الشغار‘‘ میں مبتدا خبر دونوں معرفہ ہیں اور ایک معرف باللام ہے۔ اس لئے معرف باللام محصور ہے اور یہ حصرا دعائی ہے جس سے مبالغہ مراد ہے یعنی اس صورت (مع تقرر مہر) کا شغار میں داخل ہونا ایسا یقینی ہے۔ جیسا کہ صرف یہی شغار (ممنوعہ) ہے۔ اس مبالغہ سے مقصد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا۔ یہ ہے کہ اس صورت کے شغار سے خارج ہونے کا کسی قسم کا شہ نہ کیا جائے۔ نکاح شغار بلا تقرر مہر: حدثنی نافع عن ابن عمر ان رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) نھی عن الشغار،