کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 22
عبد الرحمن الاعرج سے روایت ہے کہ عباس بن عبد اللہ بن عباس نے عبد الرحمن بن الحکم کو اپنی بیٹی کا نکاح دیا اور عبد الرحمن بن الحکم نے عباس بن عبد اللہ کو اپنی بیٹی کا اور دونوں نے مہر بھی رکھا پس معاویہ رضی اللہ عنہ نے مردان بن الحکم کو ان کے درمیان جدائی کرا دینے کا حکم لکھا اور اپنی چٹھی میں لکھا کہ یہ وہی شغار ہے جس سے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مفنع فرمایا تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نکاح مبادلہ بہ تقرر مہر شغار رہی ہے۔ [1] شبہ: اگر کوئی کہے کہ منتقی مع شرح نیل الاوطار میں وقد کانا جعلا صداقا کی جگہ وقد کانا جعلاہ صداقا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں جعل مرکب ہے جس کا پہلا مفعول (ضمیر) محذوف ہے اور معنی یہ ہے کہ انہوں نے اسی نکاح کو مہر قرار دیا تھا جو عدم تقرر مہر ہی کی صورت ہے۔ ازالہ شبہ: وقد کانا جعلاہ صداقا (ضمیر کے ساتھ) نقل[2] کی غلطی ہے۔ منتقی متن کے نسخوں ، مسند احمد اور ابو داؤد اصل کتابوں میں وقد کانا جعلا صداقا (بغیر ضمیر کے) ہے۔ نیز اسے محذوف جاننا قواعد عربیہ کے
[1] مالکی فقہ کی معتبر کتاب مختصر الخلیل ص ۸۲ میں ہے۔ اوکزوجنی اختک بماۃ علی ان ازوجک اختی بمأۃ وھو وجہ الشغار یا مجھے اپنی بہن کا ایک سو (مہر) میں نکا دے (اس بدلہ میں) کہ میں تھے ایک سو (مہر) میں اپنی بہن کا نکاح دیتا ہوں۔ یہ شغار ہی کی ایک صورت ہے۔۔۔ قاضی ابو بکر بن العربی نے بھی عارضۃ الاحوذی میں نکاح بہ تقرر مہر کو شغار منہی عنہ ہی کی ایک صورت لکھا ہے۔ [2] علامہ خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ نفی بذل المجہود (شر ابی داؤد (۱۷:۳) میں رقمطراز ہیں۔ ھٰکذا فی جمیع نسخ ابی داؤد بغیر الضمیر وکذا فی النسخۃ المصریۃ لمسند الامام احمد مثل مافی ابی داؤد ووجدت فی ما کتب الشوکانی من نسخۃ منتقی الاخبار وقد کانا جعلاہ صداقا بالضمیر ولم اجدہ