کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 21
فرماتے ہیں :۔ ’’اس پر سب متفق ہیں کہ نکاح شغار ناجائز ہے۔‘‘ [1] شغار کی تعریف بعض علما کی غلطی کی وجہ سے میں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے مطلقاً ممانعت ذکر کرنے کے بعد الگ الگ احادیث سے بھی شغار کی دونوں صورتوں کی حرمت بیان کر رہا ہوں جو حسب ذیل ہے: نکاحِ شغار بہ تقرر مہر: عن عبد الرحمن بن ھرمز الاعرج ان العباس ابن عبد اللّٰہ بن العباس انکح بن الحکم ابنتہ وانکحہ عبد الرحمٰن بنتہ وقد کانا جعل صداقا فکتب معاویۃ بن ابی سفیان الی مروان بن الحکم یامرہ بالتفریق بینھما وقال فی کابہ: ھذا الشغار الذی نھی عنہ رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) اخرجہ[2] احمد و ابو داؤد
[1] حافظ ابن عبد البر سے بھی یہی منقول ہے۔ بسوط للسرخسی اور ہدایہ وغیرہ کی عبارات سے یہ وہم ہوتا ہے کہ حنفیہ شغار کی حرمت کے قائل نہیں جس کی وضاحت یوں ہے کہ متقدمین حنفیہ اس کے ناجائز ہونے میں تو دوسرے علما سے متفق ہیں لیکن اس کی صحت و انعقاد کے قائل ہیں اور نکاح شغار کو (جب کہ وہ کر لیا جائے) صحیح قرار دے کر مہر مثل واجب کرتے ہیں اور فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاویل اس طرح کرتے ہیں کہ جب مہر مثل واجب ہو گیا تو نکاحِ شغار نہ رہا کیوں کہ ان کے نزدیک شغار وہ ہوتا ہے جو نکا بلا مہر ہو۔ لیکن یہ حیلہ عملی طور پر یہ صورت اختیار کر گیا ہے کہ ا کے نزدیک شغار جائز نظر آتا ہے۔ اس لئے ان کی عبارتیں اکثر جواز کا وہم التی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے حیلوں سے بچائے جو نام کے پھیر سے رام کا مرتکب بنائے۔ آمین [2] اگر کہا جائے کہ اس روایت میں محمد بن اسحاق مدلس ہے تو جواب یہ ہے۔ اس نے یہ روایت ’’حدثنی‘‘ سے کی ہے، لہٰذا یہ روایت صحیح ہے۔ ۱۲