کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 19
اشارہ بھی نہیں جس سے ثابت ہو کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے الفاظ نقل نہیں کیے بلکہ لفظوں میں شغار کی تفسیر کی ہے۔ اس قسم کے کمزورشبہات سے اس کو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر موقوف نہیں بنایا جا سکتا۔
ثانیا: اگر بالفرض یہ تفسیر لفظاً موقوف ہو پھر بھی حکماً ہے کہ کیوں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اہلِ لسان ہیں ۔ ان دنوں کے مروجہ شغار سے خوب واقف تھے اور صحابی کے لئے غالب خیال یہی ہوتا ہے کہ اس نے یہ معنی نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے سمجھے ہیں ۔ اسی بنا پر ایسی موقوف حدیث حکماً مرفوع سمجھی جاتی ہے۔ کما تقرر فی الاصول۔
حدیث نمبر ۲:
مسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن حبان میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:۔
لا شغار فی الاسلام (یعنی اسلام میں شغار نہیں ہے۔)
اس حدیث میں لائے نفی جنس اسلام میں ایسے شغار کے وجود اور انعقاد کی نفی کر رہا ہے اور اس حدیث میں ان لوگوں کی صاف تردید ہے جو ناجائز تو کہتے ہیں مگر نکاح کے واقع ہو جانے کے قائل ہیں ۔
لائے نفی جنس بطلان کی دلیل ہے:
جمہور نحاۃ کے نزدیک لائے نفی جنس حرف ہے جو کسی شے کی جنس کی نفی کرنے کے لئے آتا ہے اور اس معنی کے لئے نص ہے۔ بنو تمیم اسے فعل منفی (انتفی) کے معنی میں لیتے ہیں اور ’’لا‘‘ کی خبر کو صفت بناتے ہیں ۔
دونوں صورتوں میں لا شغار فی الاسلام کے الفاظ شغار کے بطلان کی دلیل ہیں ۔ جو سلب کلی کا صور (علامت) کی وجہ سے شغار کے ہر فرد شغار بہ تقرر مہر اور شغار بغیر تقرر مہر کو باطل قرار دیتا ہے۔
بعض لوگ نکاح شغار کو متبر قرار دینے کے لئے لائ کی خبر کی تقدیر ایسی کرتے ہیں جس سے حرام ہونے کے باوجود نکاح منعقد ہو جائے۔ حالانکہ وہ عربیت سے ناواقف ہیں ، کیونکہ لائے نفی جنس کی تقدیر ہی خبر کا قانون حس ذیل ہے:
’’خبر یا تو مطلق (افعال عامہ سے) ہو گی یا مقید، مقید کی دو صورتیں ہیں یا تو مقید بر ظرف ہو