کتاب: محدث شمارہ 3 - صفحہ 17
ان النبی (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) نھٰی عن المشاغرۃ (اخرجہ ابو الشیخ فی کتاب النکاح)
یعنی حدیث میں شغار اور مشاغرہ[1] دونوں لفظ آئے ہیں جو باب مفاعلہ کی مصار ہیں ۔ امام اللغۃ ابن قیتبہ رحمہ اللہ کے معنی میں فرماتے ہیں :
’’کل واحد منھما یشغر عند الجماع‘‘
شغار شرعی اسی محاورہ سے ماخوذ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ
’’شغر البلد اذا خلا‘‘ (یعنی شہر محافظ سے خالی ہو گیا۔) سے ماخوذ ہے۔
اور اس کا اصل معنی بعد اور خلو ہے اور شغار کو مہر سے خالی ہونے کی وہ سے شغار کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ مرجوح ہے کیوں کہ شغار (شرع میں ) منقول ہے اور شغار لغوی منقول عنہ۔ منقول کی اپنے منقول عنہ سے مناسبت ضروری ہوتی ہے۔
اگر غور کیا جائے تو مناسبت تامہ پہلے محاورہ سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں فریقین میں رفع رجل للجماع میں مشارکت مراد ہو گی جو شعر الکلب لیبول سے بہت مناسب ہے اور لغۃ میں شعر الرجل المرئۃ[2] بھی مستعمل ہے لیکن شغر البلد سے ایسی مناسبت حاصل نہیں کیونکہ نکاح کے مہر سے خالی ہونے کی حیثیت ثانوی ہے۔
شغار کی معنوی تحقیق:
شغار کی دو صورتیں ہیں : (۱) شغار بہ تقرر مہر۔ (۲) شغار بلا تقرر مہر۔
[1] حافظ صاحب رحمہ اللہ نے اس حدیث کو بطور لغوی شاہد کے ذکر کیا ہے کیونکہ الفاظ حدیث لغوی طور پر ٹھیک ہیں لیکن حدیث سندا ضعیف ہے ۔
[2] بعض علماء میں جو شغر المہر کا محاروہ مشہور ہے ۔ یہ عربی لغت میں مستعمل نہیں اس لیے شغار میں فریقین سے مہر کا رفع مراد لینا غلط ہے ۔12